اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے افغان طالبان جب روس کے خلاف لڑ رہے تھے تو وہ مجاہدین تھے، امریکی فوج کے خلاف جب یہ مجاہدین لڑے تو دہشت گرد قرار دیئے گئے۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا دہشت گردی کے مسائل سے لڑ رہی ہے، اور دنیا میں ریسرچ کی جا رہی ہے، پوری دنیا اس کا حل نکالنا چاہتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی پر کچھ دن پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، دہشت گردی میں تین پہلو ہیں، اس کی سیاسی، نظریاتی اور مذہبی وجوہات ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ جوڈیشل اکیڈمی اتنا اچھا کام کر رہی ہے، انویسٹی گیشن پر کام ہوا، ریسرچ پر کام ہوا پہلا ریسرچ سائیکل مکمل ہو گیا ہے، ماڈل کورٹس کے ججز بڑی ایمانداری سے کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قومیں تحقیق سے سیکھتی ہیں اور تحقیق کسی بھی معاشرے کے لیے ضروری ہے، ججز اب ریسرچ میں بھی کام سر انجام دے رہے ہیں، ججز اور وکلاء تحقیق کریں گے تو معاشرے میں تبدیلی آئے گی۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا کہ اچھے اور قابل ججز لگائیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں بہترین وکلا کو پریکٹس کے لیے جانا چاہیے، قبائلی اضلاع میں بہترین ججز اور پولیس کو بھیجا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ دہشت گردی کی تعریف سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے، دہشت گردی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ریسرچ پروگرامز کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، نئی چیزوں کے مشاہدے سے آپ بہت سی چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی و مذہبی مقاصد کے لیے دنیا بھرمیں تشدد کے طریقے اپنائے جاتے ہیں، افغان طالبان جب روس کے خلاف لڑ رہے تھے تو وہ مجاہدین تھے، امریکی قابض افواج کے خلاف جب یہ مجاہدین لڑے تو دہشت گرد قرار دیئے گئے۔
نائن الیون کے بعد اسلامک بنیاد پرستوں نے امریکا میں حملہ کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ دہشت گردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، تحقیق کی بنیاد پر دہشت گردی سمیت مسائل کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔