اسلام آباد (ویب ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ انہیں اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس جاری ہے جس میں سپریم کورٹ کے ججز، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے صدر شریک ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی چھٹی پر ہونے اور اٹارنی جنرل انور منصور خان بیرون ملک ہونے کے باعث شریک نہ ہوسکے۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل خصوصی عدالت کے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے کے بعد میرے اور عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی الزام لگایا کہ میں نے صحافیوں سے ملاقات میں مشرف کے خلاف فیصلے کی حمایت کی، مشرف کیس پر میرے اثر انداز ہونے سے متعلق بات تضحیک آمیز ہے، مجھے اور عدلیہ کو بد نام کرنے کی گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے۔
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے، مجھ پر عائد الزام بے بنیاد اور غلط ہے، ہمیں اپنی حدود کا علم ہے، سچ کا ہمیشہ بول بالا ہوگا۔ چیف جسٹس نے خطاب میں فیض احمد فیض کی نظم کا شعر پڑھا
تم اپنی کرنی کر گزرو
جو ہوگا دیکھا جائے گا
چیف جسٹس کے شعر پر کمرہ عدالت نمبر ایک تالیوں سے گونج اٹھا۔
قبل ازیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ بنیادی حقوق اور فوجداری نظام کی روایت کے خلاف ہے، اس میں عداوت اور انتقام نظر آتا ہے، سزا پر عملدرآمد کا جو طریقہ کار فیصلے میں بتایا گیا وہ غیرقانونی اور غیرانسانی ہے، ایسے کنڈکٹ والا شخص اعلی عدلیہ کا جج نہیں رہ سکتا، بھاری دل کے ساتھ کہتا ہوں چیف جسٹس نے بھی خصوصی عدالت کے مختصر فیصلے کی حمایت کی ہے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار امجد شاہ نے خطاب میں کہا کہ پرویز مشرف کیخلاف فیصلہ آئین کی بالادستی اور قانون کی عملداری کا غماز ہے، پاکستان بار کونسل جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزا دینے کے فیصلے کو سراہتی ہے، آئندہ کسی طالع آزما کو آئین شکنی اور جمہوری حکومت کو گرانے کی جرات نہ ہوگی، جسٹس وقار اور انکے ساتھی رکن جج کو ہمیشہ عزت و تکریم سے یاد رکھا جائے گا، پرویز مشرف فیصلے پر حکومتی حلقوں کا ردعمل توہین آمیز ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار نے سپریم کورٹ سے بھٹو ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر عوامی اعتماد کی بحالی کیلئے لازم ہے کہ بھٹو ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کیا جائے، ریاست کے تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، عدلیہ کو اکثر ایگزیکٹو اور اداروں کے دبائو کا سامنا رہتا ہے، سپریم کورٹ بار مشرف کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو سراہتی ہے۔