کوالالمپور (ڈیلی اردو) ملائیشیا میں ہونےو الی اسلامی سربراہ کانفرنس کے اختتامی سیشن میں کہا گیا ہے کہ وقت آگیا ہے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاست کے منظم جنگی جرائم کا نوٹس لیا جائے اور صیہونی جرائم کی تحقیقات کرکے قصور واروں کو سزا دی جائے۔
ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں 18 دسمبر سے21 دسمبر 2019ءکے دوران منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس اس اعلان کے ساتھ اختام پذیر ہوگئی ہےکہ کانفرنس میں شریک ممالک عالمی برادری کے ساتھ مل کر فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے جدو جہد جاری رکھیں گے۔ کانفرنس میں فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاست کے منظم جنگی جرائم کا نوٹس لینے اور جرائم کی تحقیقات کرکے قصور واروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا کہ اب وقت آگیا ہےکہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی جائے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم کی روک تھام کی جائے اور جنگی جرائم کےمرتکب صہیونیوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔
کانفرنس کے اختتام پر بات کرتے ہوئے مہاتیر محمد نے اس تاثرکی نفی کہ وہ کوئی نیا اسلامی بلاک بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کا مقصد پوری دنیا کے مسلمانوں کے مسائل کے ٹھوس حل کے لیے غورکرنا اور عالم اسلام کے مسائل پر توجہ دینا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی سمٹ میں 18 یاداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ ان میں ٹیکنالوجی، سائنس ترقی، میڈیا میں تعاون، فوڈ غذائی تحفظ،، یوتھ لیڈر شپ اور بین الممالک مشترکہ پروگرامات کے معاہدے شامل ہیں۔
ملائیشیا کے وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں اپنی قوت اور کمزوری کا جائزہی لینا چاہیے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس کیا اضافی صلاحیت ہے اور ہم اس سے کسی طرح استفادہ کرسکتےہیں۔
پاکستان کی کوالالمپور سمٹ میں عدم شرکت پر مہاتیر محمد نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر عمران خان اس کانفرنس میں شرکت کرتے تو ہمیں خوشی ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ آئندہ ہونے والی اس کانفرنس میں عمران خان یا پاکستان کی نمائندہ قیادت شرکت کرے گی۔
کانفرنس کے اختتام پر بات کرتے ہوئے مہاتیر محمد نے اس تاثر کی نفی کہ وہ کوئی نیا اسلامی بلاک بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کا مقصد پوری دنیا کے مسلمانوں کے مسائل کے ٹھوس حل کے لیے غورکرنا اور عالم اسلام کے مسائل پر توجہ دینا تھا۔