مانسہرہ (ڈیلی اردو) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اللہ پر مانسہرہ میں 10 سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم کو تین دن تک پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
3 روز قبل خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے گائوں ٹھاکر میرا میں مدرسے کے 10 سالہ طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق میڈیکل رپورٹ میں طالب علم پر جنسی زیادتی اور تشدد ثابت ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بچے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی کہنیوں پر زخم اور آنکھوں میں سوجن کے نشانات بھی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس پر سیاسی، دینی اور مذہبی جماعتوں کا شدید دباﺅ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ملزم کو بے گناہ قرار دیا جائے اور اسکی جگہ پر کسی اور کو ملزم نامزد کیا جائے۔
مانسہرہ کے ضلع پولیس افسر صادق بلوچ کے مطابق اس واقعہ کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم نے بچے کے ساتھ زیادتی کے علاوہ بچے کو جان سے مارنے کی کوشش بھی کی ہے جس پر ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کی گئی ہیں۔
دوسری جانب پولیس نے ملزم قاری شمس الدین کو سخت سیکیورٹی میں مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔ پولیس نے ملزم کے چودہ روز کے ریمانڈ کی استدعا کی۔ عدالت نے ملزم کے پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
انچارج پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزم کا ڈی این اے کرایا جائے گا اور شریک ملزمان سے متعلق تفتیش کی جائے گی۔ ملزم کو تین دن تک پناہ دینے والوں کو بھی شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔
اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق بچے پر تشدد کے واقعے کے تین دن بعد مفتی کفایت اللہ نے ملزم کو ڈی پی او کے حوالے کیا تھا۔
ملزم کو 3 روز تک پناہ دی گئی جو کہ جرم ہے تاہم مفتی کفایت کیخلاف مقدمہ اس وقت درج کیا جائے گا جب جرم ثابت ہو گا۔
واضح رہے کہ طالبعلم کو چند روز قبل اس کے استاد قاری شمس الدین نے بالائی کوہستان میں قائم ایک مدرسے میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچے کے ساتھ تقریباً 100 مرتبہ سے زائد (زیادتی) بدفعلی کی گئی، اس دوران تشدد بھی کیا جاتا رہا۔ بار بار تشدد کی وجہ سے بچے کی آنکھوں سے آنسووں کے بعد خون بہنا شروع ہوگیا۔ اس وقت بچہ ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلکس میں زیر علاج ہے۔ جبکہ مدرسہ اسلامیہ تعلیم القرآن کو سیل کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل بالائی کوہستان میں عوام احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے اور زیادتی کرنے والے قاری کی سرِ عام پھانسی کا مطالبہ کیا۔
اس مظاہرے سے عبدالجبار خان، رحمٰن شمس، فضل مبارک ایڈووکیٹ، مولانا انضمام الحق اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اس کیس کا ازخود نوٹس لے کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات نہ ہوں۔
واضح رہے کہ کوہستان سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ متاثرہ بچے کو 3 ماہ قبل مدرسہ اسلامیہ تعلیم القرآن میں داخل کروایا گیا تھا۔
بچے کے اہلِ خانہ کی جانب سے مانسہرہ پولیس کے پاس درج کروائے گئے مقدمے کے مطابق اسے قاری شمس الدین نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جو گورنمنٹ ہائی سکول پرہانہ میں ٹیچر ہے اور شام میں اپنے بھائی کے مدرسے ” مدرسہ اسلامیہ تعلیم القرآن” میں مذہبی تعلیم بھی دیتا تھا۔