خرطوم (ڈیلی اردو) سوڈان کی ایک عدالت نے نیشنل انٹیلی جنس سروس کے ستائیس اہلکاروں کو ایک استاد کی زیر حراست ہلاکت کے جرم میں قصور وار قرار دے کر پھانسی کا حکم دیا ہے۔
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران میں فروری میں انٹیلی جنس اہلکاروں نے ایک استاد کو تشدد سے موت کی نیند سلا دیا تھا۔اسی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں سوڈانی فوج نے مطلق العنان صدر عمر حسن البشیر کو اپریل میں معزول کردیا تھا۔
ان احتجاجی مظاہروں کے دوران میں سکیورٹی فورسز کی کریک ڈاؤن کارروائیوں میں بیسیوں افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سوڈان کی کسی عدالت نے مظاہرین کی ہلاکت کے جرم میں سرکاری اہلکاروں کو سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
https://twitter.com/wmuhaker/status/1211592086996291585?s=08
عدالت نے اسی مقدمے میں ماخوذ تیرہ مدعا علیہان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے اور چار کو برّی کردیا ہے۔ تمام سزا یافتہ مجرمان اعلیٰ عدالتوں میں عدالت کے اس حکم کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
Sudanese judiciary orders death sentences against 31 (security/intel personnel) found guilty for the death of Sudanese teacher Ahmed Khair, tortured to death. Huge crowds continue to gather in celebration of what is regarded a stunning victory for justice. #قصاص_احمد_الخير pic.twitter.com/5k8BzbN0ro
— Nazlı نازلي Tarzi (@NazliTarzi) December 30, 2019
واضح رہے کہ استاد احمد الخیر کی سوڈان کے مشرقی شہر خشم القربا میں سکیورٹی فورسز کے تشدد سے ہلاکت کے عمر البشیر کے خلاف عوامی احتجاج تحریک میں شدت آئی تھی اور ان کی موت اس تحریک کے لیے ایک انقلابی واقعہ ثابت ہوئی تھی۔
الخیر خاندان کے مطابق سکیورٹی حکام نے ابتدا میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ احمد الخیرکی موت زہر خورانی سے ہوئی تھی لیکن بعد میں سرکاری تحقیقات میں تشدد سے ان کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔ انٹیلی جنس ایجنٹوں نے انھیں دوران حراست تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
سوڈانی دارالحکومت خرطوم کے جڑواں شہر اُم درمان میں قائم عدالت نے انٹیلی جنس اہلکاروں کے خلاف اس مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے۔ فیصلے کے اعلان کے وقت عدالت کے باہر سیکڑوں افراد موجود تھے۔ ان میں بعض شہری قومی پرچم لہرا رہے تھے اور بعض نے مقتول احمد الخیر کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور اس کے خون کا حساب مانگ رہے تھے۔