کراچی: صحافی نصراللہ چوہدری کو دہشتگردی مقدمے میں سزا، فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج

کراچی (ڈیلی اردو) سینئر صحافی و رکن کراچی پریس کلب نصر اللہ چودہدی نے مبینہ ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں سنائی گئی سزا کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

پاکستان میں صحافی نصراللہ چوہدری کو ممنوعہ لٹریچر کے ذریعے نفرت پھیلانے اور دہشت گرد تنظیم کی سہولت کاری پر پانچ سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ ملزم پر دونوں جرم ثابت ہو گئے ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے کہ انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت کسی صحافی کو سزا سنائی گئی ہے۔

صحافتی تنظیموں نے نصر اللہ چوہدری کو ممنوعہ لٹریچر رکھنے کے الزام میں سزا سنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک انوکھا فیصلہ قرار دیا ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (دستور)، کراچی یونین آف جرنلسٹ (دستور) اور دیگر صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایک سینئر صحافی کو اس طرح سزا سنانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ غیر قانونی ہتھکنڈوں کے باوجود آزادیٔ صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔

پولیس کے مطابق روزنامہ ‘نئی بات’ سے منسلک صحافی نصراللہ چوہدری کو گزشتہ سال 11 نومبر کو کراچی کے علاقے سولجر بازار سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن کے قبضے سے نفرت آمیز لٹریچر برآمد ہوا تھا۔

عدالت نے نصراللہ چوہدری کو دو مختلف جرائم میں پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنانے کے علاوہ 15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں ملزم کو مزید ایک ماہ قید کی سزا کاٹنا ہوگی۔ عدالت نے ملزم کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے فوری جیل بھیجنے کا حکم سنایا ہے۔

‘الزامات جھوٹے ہیں، سادہ لباس اہلکاروں نے گھر سے اٹھایا’

صحافی نے عدالت میں دورانِ سماعت تمام الزامات کو من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے رد کیا تھا۔ اور دعویٰ کیا تھا کہ ان سے ایسی کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی۔

نصراللہ چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ بے گناہ ہیں اور اُنہیں نو اور دس نومبر کی درمیانی شب گھر سے سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے اٹھایا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم کے گھر سے “نوائے افغان جہاد” میگزین کی چار کاپیاں، “راہ جہاد” اور “پنجابی طالبان” نام کی کتابوں کے علاوہ کچھ مزید کتابیں بھی برآمد ہوئی تھیں جو نفرت اور دہشت گردی کی ترغیب دیتی ہیں۔

پولیس کی جانب سے ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ملزم پر نفرت پر مبنی مواد رکھنے، اس کی تشہیر اور دیگر الزامات عائد کیے گئے تھے۔

لیکن سرکاری وکیل کے مطابق ملزم سے تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بھی اسے “بلیک” ڈیکلیئر کیا ہے۔ ملزم کے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد خالد مکاشی سے تعلقات تھے اور وہ اس کے جرائم میں سہولت کاری کے فرائض انجام دے رہا تھا۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم سے برآمد ہونے والی اشیاء میں حکومتِ پاکستان اور مسلح افواج کے خلاف نفرت آمیز لٹریچر ملا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نفرت پھیلا کر کالعدم تنظیموں اور ان کے کارندوں کو دہشت گردی پر اُکسانا چاہتا تھا۔

تاہم ملزم کے وکیل کے مطابق پولیس نے پورا کیس من گھڑت اور اپنی جانب سے گھڑا ہے۔ ملزم کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں اور اس کیس میں بھی ملزم کے خلاف کوئی براہِ راست ثبوت موجود نہیں۔

ملزم کے وکیل کے بقول، نصراللہ چوہدری ایک سینئر صحافی ہیں جنہیں پولیس کے انسداد دہشت گردی ونگ نے جان بوجھ کر غلط مقدمے میں پھنسایا ہے۔ تفتیشی افسر کی جانب سے عدالت میں کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے ثابت ہو کہ ملزم کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ملزم کے خلاف القاعدہ کے دہشت گرد خالد مکاشی کے لیے سہولت کاری کا جرم ثابت ہو گیا ہے جبکہ ملزم نے ملک دشمن اور مذہبی نفرت پر مبنی مواد کے فروغ کے ذریعے کالعدم تنظیم کو دہشت گردی پر بھی اکسایا۔

فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان:

سینئر صحافی کی جانب سے اپیل میں موقف اختیار کیا ہے کہ سادہ لباس قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار 7 نومبر 2018ء کو کراچی پریس کلب میں غیر قانونی داخل ہوئے صحافیوں کو ہراساں اور دھمکایا گیا تاہم صحافیوں کے احتجاج کے بعد 8 نومبر 2018ء کی شب سادہ لباس قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے مجھے گھر سے غیر قانونی حراست میں لے لیا  گیا۔ جس پر کراچی پریس کلب اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھرپور احتجاج کے باعث سی ٹی ڈی نے 3 روز تک غیر قانونی حراست میں رکھنے کے بعد جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں نامزد کر دیا۔

سنئیر صحافی نے اپیل میں مزید موقف اپنایا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا اور ان کے خلاف ممنوعہ لٹریچر سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

نصر اللہ چودہدی نے اپیل میں کہا کہ ان کی گرفتاری اور غیر قانونی حراست پر نہ صرف ملکی بلکہ عالمی میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور عدالت نے ان کی غیر قانونی حراست کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سزا سنائی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد فاروق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ وہ اس فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر رہے ہیں اور اُنہیں پوری امید ہے کہ اعلیٰ عدالت، انسداد دہشت گردی عدالت کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دے گی جس میں حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

‘حکومت اداروں کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہے’
کراچی پریس کلب کے نو منتخب خازن اور صحافی رہنما راجہ کامران کا کہنا ہے کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے دھمکیوں، تشدد اور ہراساں کرنے کے عمل کے ذریعے صحافتی حلقوں پر دباؤ ڈال رہی ہے۔

ان کے بقول، آئین کا آرٹیکل 19 آزادیٔ اظہار رائے کا محافظ ہے لیکن صحافیوں سے یہ حق چھینا جا رہا ہے اور اُنہیں دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں جس کی وہ شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

صحافتی تنظیموں کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے سے دنیا میں پاکستان میں آزادی صحافت سے متعلق منفی تاثر بھی پیدا ہو گا۔

صحافتی تنظیموں نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے نصر اللہ چوہدری کی سزا اور صحافیوں پر غیر قانونی مقدمات کے اندراج کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں