۔لاہور (ویب ڈیسک) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے نجی چینل ‘دن نیوز’ کے صحافی رضوان الرحمٰن رضی عرف رضی دادا کو ٹویٹر میں عدلیہ، حکومتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے خلاف ‘ہتک آمیز اور نفرت انگیز’ پوسٹس کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے 8 فروری کو درج کی گئی ایک ایف آئی آر کے مطابق رضوان رضی کو انکوائری کے لیے ‘طلب’ کیا گیا تھا اور بیان ریکارڈ کیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے جاری کی گئی ایف آئی آر کی رپورٹ اور رضوان رضی کے فیس بک اکاؤنٹ سے جاری بیان میں تضاد پایا جاتا ہے، جہاں ان کے اکاؤنٹ سے ان کے بیٹے کی طرف جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ابھی صبح سویرے میرے باپ کو کچھ لوگ گاڑی میں دھکا مار کر اٹھا لے گئے ہیں’۔
دوسری جانب ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ‘اعتراف’ کیا ہے کہ عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف پوسٹس کی ہیں اور ‘بہت شرمندہ ہیں’ اور معذرت بھی کر لی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق رضوان دادا نے وعدہ کیا ہے کہ ‘وہ عدلیہ، پاکستان آرمی اور انٹیلی جنس ایجنسیز اور دیگر اداروں کے خلاف اس طرح کے نفرت انگیز اور ہتک آمیز پوسٹس نہیں کریں گے’۔
فیڈرل ایجنسی کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران رضوان رضی دادا کا موبائل ضبط کرکے ڈیٹا کی فرانزک رپورٹ بھی حاصل کرلی گئی ہے۔
ایف آئی اے حکام نے مزید کہا گیا ہے کہ حکام کی اجازت سے رضوان دادا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
صحافی رضوان رضی کے خلاف درج ایف آئی آر میں انہیں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 11 اور 20 کی دفعات کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس قانون پر بڑی تنقید کی گئی تھی اور اس قانون کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں انہیں مزید ایک اور قانون تعزیرات پاکستان کی دفعہ 500 کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دیا گیا جو ہتک عزت سے متعلق ہے جس پر دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ رضوان رضی کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو بھی معطل کردیا گیا ہے حالانکہ ان کے بیٹے نے اٹھائے جانے کی خبر اسی اکاؤنٹ سے دی تھی۔
رضوان رضی کے بیٹے نے دو ٹویٹس کی تھیں جن میں سے پہلی ٹویٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ میرے باپ کو دھکا دے کر گاڑی میں بٹھاکر لے گئے ہیں۔
اپنی دوسری ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ‘کچھ لوگوں سے بات کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ میرے والد صاحب کو پہلے کالی گاڑی میں لے کر گئے اور تھوڑی ہی دور جا کر ایک رینجرز کی گاڑی میں بیٹھا دیا’۔
اسی ٹویٹ میں انہوں نے مزید کہا کہ ‘گارڈ کہتا ہے کہ یہ حرکت اس نے صبح 8 بجے سے مسلسل نوٹس کی جب وہ ڈیوٹی پر آیا’۔
ٹویٹر میں صحافیوں اور سیاست دانوں سمیت کئی صارفین نے رضوان رضی کو اس طرح اٹھائے جانے کے حوالے سے شدید تنقید کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رضوان رضی کی رہائی کے لیے ٹویٹر میں ٹاپ ٹرینڈ بھی بن گیا۔