پشاور (ویب ڈیسک) کچھ کر گزرنے کی لگن ہو تو کئی مجبوری یا معذوری انسان کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس کی ایک زندہ مثال صبا گل کی صورت ہمارے سامنے آئی ہے جس نے ہمت و حوصلے کی ایسی داستان رقم کی ہے کہ جس کی مثال کم ہی ملے گی۔ 2005ء میں صبا گل تین سال کی تھی جب بجلی کا تار ٹوٹ کر اس پر آ گرا۔ والدین اسے فوری طور پر ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے یہ اندوہناک خبر سنائی کہ اس کے دونوں ہاتھ کاٹنے پڑیں گے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
صبا ابھی کچھ ماہ قبل ہی سکول داخل ہوئی تھی، دونوں ہاتھ کٹ جانے کے بعد صبا گل نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تعلیم جاری رکھی اور ہاتھوں سے کرنے والے کام بھی پیروں سے کرنے شروع کر دیئے۔ اس وقت وہ خیبرپختونخوا کے ایک بہترین سکول میں زیرتعلیم ہے۔ اب وہ پیروں سے لکھتی ہی نہیں بلکہ کپڑے استری کرتی اور گھر کے دیگر کام کاج بھی کرتی ہے اور کھانا بھی پیروں ہی سے کھاتی ہے۔
صبا گل کی کہانی سن کر پوری دنیا سے لوگ اس کے ہمت و حوصلے کی داد دے رہے ہیں۔ ویب سائٹ ’پڑھ لو‘ کے مطابق ایک انٹرویو میں صبا گل کا کہنا تھا کہ ”ہاتھوں کے بغیر زندگی یقینا بہت مشکل تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھے پیروں سے ہر کام کرنے کی عادت ہو گئی۔
میں نے خود کو نارمل لڑکی سمجھا اور خود اپنے آپ کو نارمل لڑکیوں جیسی زندگی جینا سکھایا۔ میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ انسان کو زندگی میں آنے والی مشکلات کا جرات مندی کے ساتھ سامنا کرنا چاہیے۔ “