بغداد (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکہ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جمعے کے روز بھی جاری رہا۔ مظاہرین ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کمانڈر کی شہادت کے بعد امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Hundreds of thousands heeded the call for a "Million Man March" in Baghdad, calling for US troops to leave Iraq amidst a heavy security presence https://t.co/BAuyT5vMXe
— CNN International (@cnni) January 24, 2020
شیعہ رہنما مقتدی الصدر کی کال پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ شرکا نے بینرز اُٹھا رکھے تھے جن پر امریکہ مخالف نعرے درج تھے۔
Over 8 Kilometres of packed streets with millions of Iraqis calling for FULL withdrawal of American forces from #Iraq#IraqMillionManMarch #USGetOut #ثورة_العشرين_الثانية #ثورة_العشرين_الثانية2020 pic.twitter.com/K6l47kr0wu
— iQ MidEast Centre (@iQMidEastCentre) January 24, 2020
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مظاہرین بغداد کے علاقے ‘الحریہ’ میں جمعے کی صبح سے ہی جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ تاہم مظاہرین نے احتجاج کا بڑا مرکز سمجھے جانے والے ‘تحریر اسکوائر’ جانے سے گریز کیا۔
#ثورة_العشرين_الثانية_2020https://t.co/8ENQE3pE77 pic.twitter.com/GVjwTLJkFG
— قناة العهد (@ahadtv) January 24, 2020
مظاہرے میں شریک محکمہ صحت کے ایک اہل کار رائد ابو زہرہ نے کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور بدعنوان سیاست دان عراق سے نکل جائیں۔ ہم اس لیے تحریر اسکوائر نہیں جا رہے تاکہ وہاں ہونے والے مظاہروں سے توجہ نہ ہٹ سکے۔”
Watch America: One Flag, one request, #Iraq is united: #USOutOfIraq#US: Your presence is no longer welcome. Leave in peace now before it is too late. Your President doesn't care about US forces. He cares about oil. He said it #noshame #IraqMillionManMarch pic.twitter.com/1w4SwZOLQJ
— Elijah J. Magnier ???????? (@ejmalrai) January 24, 2020
خیال رہے کہ بغداد کے تحریر اسکوائر اور اس سے ملحقہ جگہوں پر مظاہرین کا کئی ماہ سے قبضہ ہے جنہوں نے وہاں خیمے نصب کر رکھے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک یہ جگہ خالی نہیں کریں گے، جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔
مارچ میں شریک ہزاروں مرد، خواتین اور بچوں نے ہاتھوں میں سُرخ، کالے اور سفید رنگ کے جھنڈے اُٹھا رکھے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق شرکا کو عراق کی پاپولر موبائلزیشن فورس کا تحفظ حاصل تھا۔
بغداد کا گرین زون جہاں غیر ملکی مشن اور اہم تنصیبات ہیں وہاں کنکریٹ کے بلاکس کے ذریعے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مظاہرین عراق میں امریکی قوت کا مرکز سمجھے جانے والے امریکی سفارت خانے کی جانب جانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔
خیال رہے کہ عراق میں ہونے والے مظاہروں کی نوعیت مختلف ہے۔ ایک جانب حکومت کے مخالف مظاہرین روزگار، مہنگائی، کرپشن اور توانائی کے بحران پر سراپا احتجاج ہیں۔
دوسری جانب تین جنوری کو امریکی ڈرون حملے میں ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق کے ایک حلقے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
امریکہ مخالف احتجاج کے لیے شیعہ رہنما مقتدی الصدر دوبارہ سرگرم ہو گئے ہیں جس سے حکومت مخالف مظاہرین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ اُن کی حکومت کے خلاف تحریک ان مظاہروں کے باعث پسِ پشت جا سکتی ہے۔
عراق میں امریکی تنصیبات
عراق میں لگ بھگ چھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ 2011 کے بعد یوں تو امریکہ نے عراق میں مستقل فوجی اڈے ختم کر دیے تھے۔ لیکن، اب بھی عراق کے مغربی صوبے عنبر میں عین الاسد ایئر بیس امریکہ کے زیرِ استعمال ہے۔
عین الاسد ایئر بیس وہی فوجی اڈہ ہے جہاں رواں ماہ ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔
یہ فوجی اڈہ عراقی فوج کی تربیت، معاونت اور مشاورت کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔