بیجنگ (ڈیلی اردو/شِنہوا) چینی کے صوبے ہوبئی کے شہر ووہان سے پھیلنے والے مہلک ’کورونا وائرس‘ کے جنم لینے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہےکہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ اور زندہ چوہے کھانے سے پھیلا۔
چین میں پُراسرار ’کورونا‘ وائرس سے اب تک 800 سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جس میں سے 25 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
برطانوی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ووہان سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں دیکھا گیا کہ چینی شہری چمگادڑ کا سوپ اور زندہ چوہوں کا کھانا کھا رہے ہیں۔
When you eat bats and bamboo rats and shit and call it a "Chinese delicacy", why y'all be acting surprised when diseases like #coronavirus appear? ????https://t.co/SQjCzheDQN
— woppa ???????? (@Woppa1Woppa) January 22, 2020
مذکورہ تصاویر سامنے آنے کے بعد ماہرین کا کہنا ہےکہ ووہان کی مارکیٹ سے ملنے والی چمگادڑ کی ایک قسم’فروٹ بیٹ‘ ، ’کورونا وائرس‘ کے پھیلنے کا سبب بنی جو اب ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو رہا ہے۔
Çin'den başlayıp tüm dünyaya yavaş yavaş yayılan Corona virüsü'nün yarasa yiyen insanlardan yayıldığı iddia ediliyor.
Önünüze gelen her şeyi yerseniz olacağı buydu. #Wuhan #coronovirus pic.twitter.com/Hcj7bLTS9h
— Bilim Arşivi ???? (@bilimarsivi) January 23, 2020
ماہرین نے بتایا کہ سب سے پہلے جو افراد اس شکایت کےساتھ اسپتال پہنچے تھے ان کا تعلق مقامی ہول سیل مچھلی مارکیٹ سے تھا جہاں مرغیاں، گدھے، بھیڑیں، خنزیر، اونٹ، لومڑیاں، بیڈ جر، چوہے، کانٹوں والا چوہا، بلیوں کی ایک قسم civet، بھیڑیے اور دیگر رینگنے والے جانور دستیاب ہوتے ہیں۔
ووہان میں موجود اس مارکیٹ کو گزشتہ سال دسمبر میں بند کر دیا گیا تھا جسے اب سیل کرکے سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب غذائی ماہرین بھی اس بات کا پتہ لگا رہے ہیں کہ چوہے اور سانپ کھانا اس وائرس کی وجہ ہو سکتا ہے کیونکہ بھی ووہان کی ان مارکیٹس میں با آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔
ماہرین کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائر س جنگلی چمگادڑوں سے سانپوں میں منتقل ہوا ہوگا جنہیں جنگلوں سے شکار کرکے لانے کے بعد ان کو مارکیٹس میں فروخت کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس بات کا پتا لگایا جارہا ہے کہ کیسے گرم خون کے جانوروں میں سے یہ وائرس ٹھنڈے خون کے جانوروں میں منتقل ہوا اور اس کورونا وائرس جیسی بیماری کا سبب بنا۔
طبی ماہرین کی جانب سے 3 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو اس وائرس سے بچاؤ اور اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے ویکسین کی تیاری میں مشغول ہیں۔
کولیشن آف ایپی ڈیمک پری پیرڈنیس انوویشن (سی ای پی آئی) جو ایمر جنسی پروگرامز میں مدد بھی فراہم کرتی ہے ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ جون ہی سے وائرس کے لیے ویکسین تیار کرنے کا سوچا گیا تھا جس کا انسانوں پر ٹیسٹ کرنے کا بھی سوچا گیا تھا۔
سی ای پی آئی نے بتایاکہ اب اس وائرس پر ’یو ایس نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشن ڈیزیز‘ کے ساتھ مل کر تحقیق کی جائے گی اور ویکسین بھی تیار کی جائے گی۔
دوسری جانب چین کے صحت حکام نے اعلان کیا ہے کہ جمعرات تک ملک کے 29 صوبائی سطح کے علاقوں میں نوول کرونا وائرس سے نمونیا کے 830 مریضوں کی تصدیق ہوگئی ہے۔
کمیشن نے مزید کہا ہے کل 9،507 ایسے افراد کا بھی پتہ چلا لیا گیا جو پہلے سے متاثرہ مریضوں سے قریب رہے تھے، جن میں سے 8420 افراد زیرِ طِبی مشاہدہ ہیں جبکہ بقیہ 1،087 افراد کو ہسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے۔
کمیشن کے مطابق نمونیا کے نتیجے میں 25 ہلاکتیں ہوگئیں ہیں۔ ان میں سے 24 وسطی چینی صوبہ ہوبے اور ایک شمالی صوبہ ہیبے میں ہوئی ہے۔
جمعرات کی آدھی رات تک ہانگ کانگ، مکاؤ کے خصوصی انتظامی علاقہ اور تائیوان میں 5 مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے ان میں سے 2 ہانگ کانگ، 2 مکاؤ اور ایک کا تائیوان میں پتہ چلا ہے۔
بیرون ملک تھائی لینڈ میں نمونیا کے تین واقعات کی تصدیق ہوئی ہے، جن میں سے 2 پہلے ہی صحت یاب ہوچکے ہیں۔ جاپان میں ایک مریض صحت یاب ہوچکا ہے۔جمہوریہ کوریا، امریکہ اور سنگاپور میں ایک ایک جبکہ ویت نام میں دو مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے۔