تہران (ڈیلی اردو/ارنا) اسلامی جمہوریہ ایرن کے صدر مملکت نے مشرق وسطی کیلئے ٹرمپ کے نام نہاد امن منصوبے کو صدی کا سب سے نفرت انگیز منصوبہ قرار دے دیا۔
ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کی رات ایک ٹوئٹر پیغام میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ان بیوقوفانہ اقدمات کی حد ہوگئی ہے۔
Enough of these foolish attempts. The Most Despicable Plan of the Century.#DespicablePlan
— Hassan Rouhani (@HassanRouhani) January 29, 2020
اس سے پہلے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی تجویز کردہ صدی کی ڈیل منصوبہ کو جہنم کی طرف ایک شاہراہ قرار دے دیا۔
انہون نے مزید کہا کہ کیا منڈیلا جنوبی افریقہ کی آزادی کے کئی عشروں بعد، بنٹوٹسن کے دوبارہ وجود میں آنے کا تصور کر سکتا تھا؟
ظریف نے مزید کہا کہ امریکی وژن برائے امن “جہنم کی شاہراہ” کی طرح لگتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے؛ امریکہ کبھی بھی ایماندار دلال کی طرح نہیں رہا اور نہ ہی ہوگا۔
ظریف نے اپنے پیغام میں ہش ٹیک #Unite۴Palestine کا استعمال کیا اور جنوبی افریقہ اور مغربی افریقہ کے نسل پرست حکومت بنٹوٹسن کے دو نقشوں سمیت فلسطین کیلئے امریکی نام نہاد امن منصوبے کے نقشے کو بھی شائع کیا۔
اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اس سے پہلے ایک اور ٹوئٹر پیغام میں امریکی نام نہاد امن منصوبہ صدی کی ڈیل کو خطے اور دنیا کیلئے ایک ڈراؤنا خواب قرار دے دیا۔
ظریف نے ایک ٹوئٹر پیغام میں مزید کہا کہ امریکہ کا “نام نہاد امن وژن” صرف ایک ناکام ریل اسٹیٹ ڈویلپر کا خام خیالی منصوبہ ہے۔
ظریف نے اس امید کا اظہار کردیا کہ وہ مسلمان جنہوں نے غط راستے کو اپنانے ہیں، اسی اقدام کے ذریعہ ہوشیار ہو کر صحیح راستے پر گامزن رہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں ہش ٹیک “آئیں فلسطینیوں کیلئے متحد ہو جائیں” کا استعمال کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناجائر صہیونی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس میں مشرق وسطٰی میں قیام امن کے لیے اپنا منصوبہ پیش کیا۔
وائٹ ہاوس میں منعقدہ اس تقریب میں فلسطین کے کسی نمائندے کو مدعو ہی نہیں کیا گیا جب کہ تقریب میں عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں نے شرکت کی۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کا کہناہے کہ اسرائیل فلسطین امن کے لیے 1967 سے پہلے کی حد بندی کے ساتھ ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے اعلان کیے جانے والے نام نہاد امن منصوبے میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا عہد شامل ہے جب کہ فلسطین کو مقبوضہ مشرقی یروشلم کے اندر دارالحکومت بنانے کی اجازت ہوگی۔