اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستانی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک آڈیو پیغام میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
تاحال آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ مذکورہ پیغام میں موجود آواز احسان اللہ احسان کی ہے یا نہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی نے جب اس مبینہ آڈیو پیغام میں کیے گئے دعویٰ پر رد عمل کے لیے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے رابطہ کیا تو فوجی ذرائع نے اس دعویٰ کی تصدیق یا تردید نہیں کی اور کہا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ انڈین اخبار سنڈے گارجئین نے یہی خبر شائع کی تھی جس کے بعد بھی حکام کی جانب سے کسی قسم کی کوئی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی تھی۔
Pak Taliban leader Ehsanullah Ehsan ‘flees’ from safe house@mishra_abhi | https://t.co/m0oLurOPUg
— The Sunday Guardian (@SundayGuardian) January 19, 2020
سوشل میڈیا پر شئیر کیے گئے احسان اللہ احسان کے مبینہ آڈیو پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’پانچ فروری 2017 کو ایک معاہدے کے بعد انھوں نے خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کر دیا تھا‘۔
اس آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ انھوں نے تین برسوں تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن سکیورٹی اداروں نے انھیں بیوی بچوں سمیت قید کر لیا تھا۔
اس پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ان تین برسوں میں پاکستانی فوج نے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے اور معاہدے کی خلاف ورزی کی‘ جس کے بعد وہ ’اپنی رہائی کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوئے‘۔
دو منٹ طویل اس آڈیو پیغام کے مطابق احسان اللہ احسان مبینہ طور پر 11 جنوری کو بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔
مبینہ آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ پاکستانی اداروں اور فوج کے بارے میں اور اپنی گرفتاری اور فرار کے بارے میں مزید تفصیلات بعد میں دیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان فوج کی جانب سے اپریل 2017 میں احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان پیش کیا گیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے لئے کام کر رہے تھے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے اس اعترافی بیان کی ویڈیو میں انھوں نے اپنا اصلی نام لیاقت علی بتایا اور کہا کہ ان کا تعلق قبائلی ضلع مہمند سے ہے۔
احسان اللہ احسان کے مطابق انھوں نے زمانہ طالب علمی ہی میں تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور وہ بعد میں تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کے ترجمان بھی رہے۔
احسان اللہ احسان نے طالبان کے ساتھ اپنے دس سال کے تجربے کی بنیاد پر کہا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان اسلام کے نام پر لوگوں کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو گمراہ کر کے اپنے ساتھ شامل کرتی ہے‘۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’طالبان رہنما خود اپنے نعروں اور دعوؤں پر پورا نہیں اترتے‘۔
احسان اللہ احسان نے اس ویڈیو میں مزید کہا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان کے لیے افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس اور انڈین ایجنسی ‘را’ پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے اہداف مقرر کرتی تھیں اور ان اہداف کو حاصل کرنے کی قیمت بھی ادا کی جاتی تھی‘۔
احسان اللہ احسان نے بحثیت ٹی ٹی پی کے ترجمان ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
پاکستان فوج کی جانب سے اپریل 2017 میں جاری کیے گئے اس بیان کے چند روز بعد احسان اللہ احسان نے پاکستانی نیوز چینل جیو کو بھی انٹرویو دیا تھا۔
سینئر صحافی حامد میر نے آڈیو پیغام ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ احسان اللہ احسان کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ اس نے ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری کیوں قبول کی؟ اسے یہ بھی بتانا ہوگا کہ اس نے کس کے کہنے پر میری کار کے نیچے بم لگانے کی ذمہ داری قبول کی تھی؟
حامد میر نے جس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا ہے وہ احسان ٹیپو محسود کا ہے جس میں احسان اللہ احسان کا مبینہ آڈیو پیغام ہے۔ احسان ٹیپو محسود بھی ایک صحافی ہیں اور وہ معروف امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی نمائندگی کرتے ہیں۔
He must tell that why he accepted the responsibility of attacking Malala Yousafzai and who asked him to accept responsibility of planting a bomb under my car??? https://t.co/dFAuSXGASu
— Hamid Mir حامد میر (@HamidMirPAK) February 6, 2020
دوسری جانب ایف جے کے نام سے ٹوئٹر پر موجود تنازعات کے ایک محقق نے کہا کہ احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو سب سے پہلے اسی کے نام پر بنے ہوئے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر شیئر کی گئی، یہ ٹوئٹر اکاﺅنٹ جنوری 2020 میں تخلیق کیا گیا، یہ ٹوئٹر ہینڈل ایک فیس بک اکاﺅنٹ سے جڑا ہوا ہے جو لیاقت علی کے نام پر بنا ہوا ہے، احسان اللہ احسان کا اصل نام لیاقت ہی ہے۔
https://twitter.com/Natsecjeff/status/1225455937953128450?s=08