افغانستان: تحریک طالبان پاکستان کے ’نائب سربراہ‘ شیخ خالد حقانی اور قاری سیف کابل میں ہلاک

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کا دارالحکومت کابل کے مرکزی علاقے میں حال ہی میں دو افراد کی ہلاکت ایک ایسی خبر تھی جس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

مارے جانے والے بھی شاید اپنی شناخت چھپانا چاہتے تھے۔ ذرائع کے مطابق ان دونوں کے پاس موجود شناختی کاغذات جعلی تھے۔

وہ کابل میں کیا کر رہے تھے اور انھیں کس نے قتل کیا یہ تاحال ایک راز ہے جس کے تانے بانے اس خطے میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسند گروہوں کے باہمی تعلق سے جڑے ہوئے ہیں۔

یہ دونوں افراد کون تھے کم از کم یہ اب واضح ہو چکا ہے۔

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے تصدیق کی ہے کہ سابق نائب امیر شیخ خالد حقانی لڑائی میں اپنے ساتھی کمانڈر قاری سیف پشاوری کے ساتھ ہلاک ہوگئے ہیں۔

افغانستان میں مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ خالد حقانی اور ان کے ساتھی کمانڈر کابل میں کسی سے ملاقات کے لیے آئے تھے اور واپسی پر جاتے ہوئے ان پر حملہ کیا گیا تاہم افغان حکومت کی طرف سے تاحال اس کی کوئی تصدق نہیں کی گئی ہے۔

اس سے پہلے تقریباً ایک ہفتے سے مسلسل یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ خالد شیخ حقانی اور ان کے ایک ساتھی کابل میں ایک جھڑپ کے دوران مارے گئے ہیں تاہم طالبان کی طرف سے اس ضمن میں مسلسل خاموشی اختیار کی گئی تھی۔ وہ اس کی تصدیق کررہے تھے اور نہ تردید۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی طرف سے جمعرات کی شام میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں کالعدم تنظیم نے تصدیق کی کہ شیخ خالد حقانی اپنے ایک ساتھی کمانڈر قاری سیف پشاوری سمیت آٹھ دن قبل ’امریکی غلاموں‘ کے ساتھ لڑائی میں ہلاک ہوگئے ہیں۔

تاہم طالبان کی طرف سے اس بیان میں مزید وضاحت نہیں کی گئی ہے اور نہ یہ بتایا گیا کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا اور یہ کہ مارے جانے والے دونوں سینیئر رہنما کابل جیسے اہم علاقے میں کیا کرنے گئے تھے۔

اس سے پہلے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور واٹس ایپ گروپوں میں بھی گذشتہ چند دنوں سے مسلسل یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ ٹی ٹی پی کے دو اہم رہنما کابل میں مارے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دونوں سینیئر کمانڈر افغانستان کے صوبہ خوست سے کابل کی طرف گئے تھے۔

افغانستان میں مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ خالد حقانی اور ان کے ساتھی کمانڈر کابل میں کسی سے ملاقات کےلیے آئے تھے اور واپسی پر جاتے ہوئے ان پر حملہ کیا گیا تاہم افغان حکومت کی طرف سے تاحال اس کی کوئی تصدق نہیں کی گئی ہے۔

شیخ خالد حقانی طالبان میں ایک فکری استاد کے طورپر جانے جاتے تھے۔ طالبان کو نظریاتی طورپر منظم کرنے میں ان کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ موجودہ قیادت میں شاید وہ واحد سینیئر کمانڈر تھے جنہیں دینی اور دنیاوی دونوں علوم پر خاصی دسترس حاصل تھی۔ وہ اکثر اوقات تحریک کےلیے فتوے لکھنے کا کام کیا کرتے تھے۔

2014 میں طالبان کی طرف سے میڈیا کے خلاف جاری کردہ فتویٰ بھی خالد شیخ نے ہی تحریر کیا تھا جس میں حکومت اور فوج کا ساتھ دینے والے صحافیوں کو واجبل قتل قرار دیا گیا تھا۔ 29 صفحات پر مشتمل اس فتوے میں صحافیوں کی درجہ بندی کی گئی تھی اور حکومت کا ساتھ دینے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے صحافیوں کو واضح کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان دنوں ٹی ٹی پی کی طرف سے صحافیوں کی ہٹ لسٹ بھی تیار کی گئی تھی۔

خالد شیخ حقانی کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تھا۔ ان کی عمر تقریباً 38 سال بتائی جاتی ہے۔ وہ کبھی میڈیا پر براہ راست نہیں آئے اور نہ کبھی ذرائع ابلاغ کو اپنی تصویر جاری کی۔ تاہم 2013 میں ان کی طرف سے میڈیا کو ایک ویڈیو انٹرویو جاری کیا گیا جس میں ان کا چہرہ واضح طور پر نظر نہیں آرہا تھا۔

اس انٹرویو میں خالد شیخ حقانی نے تحریک طالبان کی فکری جدوجہد کو مفصل طور پر بیان کیا اور افغان اور پاکستانی طالبان کے تعلق کو بھی واضح کیا۔ انہوں نے اس انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ان اطلاعات میں کوئی حقیقت نہیں کہ افغان طالبان پاکستان میں سکیورٹی فورسز کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پر ناراض ہیں۔

ویسے تو خالد شیخ حقانی ابتدا ہی سے طالبان تحریک کا حصہ رہے لیکن پہلی مرتبہ وہ دنیا کی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب انہیں 2013 میں تنظیم کا نائب امیر چنا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے خالد شیخ حقانی نے 2013 میں تنظیم میں قیادت کے معاملے پر پیدا ہونے والے اختلافات کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تنظیم کے بانی کمانڈروں بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔

انہوں نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے دینی تعلیم حاصل کی اور اس وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ حقانی کا لاحقہ استعمال کرتے تھے۔ تاہم اس کے علاوہ وہ ملک کے کس کس شہر میں پڑھے اس سلسلے میں مزید معلومات دستیاب نہیں۔

خالد شیخ حقانی نے تحریک طالبان کی کئی کارروائیوں میں حصہ بھی لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار خان پر چارسدہ میں ناکام خودکش حملہ کیا گیا جس کی منصوبہ بندی خالد شیخ حقانی نے کی۔ یہ حملہ عید الفطر کے روز کیا گیا جس میں چند افراد شہید ہوئے تاہم اسفندیار ولی خان محفوظ رہے۔

خالد شیخ حقانی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ 2012 میں شب قدر چارسدہ میں فرنٹیئر کور کے مرکز پر ہونے والے حملے میں وہ خود شامل تھے جس میں 80 کے قریب سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔ یہ کالعدم تنظیم کی طرف سے یہ ایک بڑا حملہ تھا جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بدلے میں کیا گیا تھا۔

شدت پسند تنظیموں پر کام کرنے والے صحافیوں کا خیال ہے کہ خالد شیخ حقانی کی ہلاکت ٹی ٹی پی کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں۔

ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ دسمبر 2018 میں قندھار میں ایک خودکش حملے میں ایک ایسے ہی بلوچ کالعدم تنظیم کے اہم رہنما کو ہلاک کیا گیا تھا۔

اسی طرح افغان طالبان سے منسلک افراد پاکستان میں ہلاک کیے جاتے رہے ہیں۔ سنہ 2013 میں حقانی نیٹ ورک کے ایک اہم رہنما نصیرالدین کو اسلام آباد کے علاقہ بارہ کہو میں ایک تندور پر ہلاک کیا گیا تھا۔

پاکستانی طالبان کے ذرائع کے مطابق کابل میں ہلاک کیے جانے والے دونوں افراد کی لاشیں گروپ کے حوالے کی گئیں اور رواں ہفتے انھیں صوبہ کنڑ میں ایک بڑے جنازے کے بعد دفنا دیا گیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں