اسلام آباد (ویب ڈیسک) اصغرخان عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ نے پاک فوج کو ملوث افسران کے خلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں اصغرخان عملدرآمد کیس کی سماعت کی، اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ فوجی افسران کیخلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کیوں شروع نہیں ہوئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری میں شواہد سامنے آنے پر کورٹ مارشل ہوگا۔
عدالت نے پاک فوج کو ملوث افسران کے خلاف 4 ہفتے میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کی جائے جب کہ ایف آئی اے رپورٹ کا جائزہ وزارت دفاع کے جواب کیساتھ لیا جائے گا۔
اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی درخواست پر 1990ء کے الیکشن میں دھاندلی سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کےلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی جسے اصغر خان عملدرآمد کیس کا نام دیا گیا اور گزشتہ سال مئی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان دونوں سابق اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔