تہران (ڈیلی اردو/ارنا) ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ امریکی دباؤ میں آکر مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق روحانی کا کہنا تھا کہ ایران کو دباؤ میں لانے کے لیے امریکا ہر ممکن کوشش کرچکا ہے لیکن اسے کام یابی حاصل نہیں ہوسکی۔ امریکا مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے لیکن ایران کبھی اس دباؤ سے پسپا ہوکر بات چیت نہیں کرے گا۔ انہوں ںے کہا کہ ایران کے بغیر مشرقی وسطی اور خلیج فارس میں میں امن و استحکام نہیں آسکتا۔
2018 میں ایران اور دنیا کی چھ طاقتوں کے مابین ہونے والے معاہدے سے صدر ٹرمپ کے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی۔ ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ ایران اپنے میزائل پروگرام سے دست بردار ہوکر نئے معاہدے پر مذاکرات کرے۔ تاہم ایران کا اصرار ہے کہ اقتصادی پابندیاں ختم کرکے پہلے سے موجود جوہری معاہدے کی پاس داری کی جائے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ڈاکٹر حسن روحانی نے حضرت فاطمہؑ کی یوم ولادت پر قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ایرانی قوم سے اسلامی انقلاب کی 41 ویں سالگرہ کی ریلیوں کی بھر پور شرکت کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے رواں سال کے دوران ملک میں رونما ہونے والے مختلف ناگوار واقعات جیسے 25 صوبوں میں بیک وقت سیلاب اور پھر اس کے بعد امریکی ہاتھوں میں قدس فورس کے کمانڈر جنرل سلیمانی کی شہادت اور ساتھ ساتھ یوکرائنی طیارہ حادثے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام واقعات ایرانی عوام کے دکھ اور اندوہ کے باعث ہوئے۔
انہوں نے ان تمام حادثوں کے سامنے ایرانی عوام کی صبر و مزاحمت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایرانی عظیم قوم ویسے ہی ملک کیخلاف بیرونی دباؤ کے سامنے بھی مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور ملک دشمن عناصر کی خواہشوں کے برعکس، ہمیں گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت کم مشکلات کا شکار ہوا۔
ایرانی صدر نے کہا کہ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران نے ملک کیخلاف امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کو پیچھے چھوڑ دیا جس سے یہ ظاہر ہوتی ہے کہ امریکہ کی اس غلط پالیسی نے ایرانی قوم پر اثرات مرتب نہیں کر سکی۔
کبھی کمزروی سے مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے
انہوں نے مزید کہا کہ پابندیاں، ہماری قوم پر کوئی بُرا اثر مرتب نہیں کریں گی اور نہ ہی ان پابندیوں سے ہمارے دشمنوں کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا۔
صدر روحانی نے کہا کہ وہ اس خام خیال میں ہیں کہ اگر ایران کیحخلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ عائد کرلیں تو ہم کمزور ہوکر مذاکرات کی میز پر حاضر ہوجائیں گے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی ساری کوشش یہ ہے کہ ایرانی عوام کو شدید دباؤ اور پابندیوں کا نشانہ بنانے کے ذریعے ایک ایسی صورتحال وجود میں آئے جس میں عوام اور حکومت زیادہ کمروز ہوکر مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے لیکن یہ کبھی ممکن نہیں ہوگا۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ہم نے پوری دنیا کے سامنے طاقت اور عزت سے پیش ہوجائیں گے لیکن کبھی بھی کمروزی کیساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ملک کیخلاف شدید پابندیوں اور دباؤ کے باوجود ہماری معیشت نے گزشتہ 2 سالوں کے دوران تیل مصنوعات کی لین دین پر انحصار نہیں کیا اور بغیر تیل کی معیشت کا تجربہ کیا۔
دشمن کو ایران سے مذاکرات کرنے پر مجبور کریں گے
صدر روحانی نے کہا کہ ملک کے مختلف شعبوں بشمول تیل، گیس، بجلی، پانی، زراعت، سیاحتی، صنعت، کان کنی اور سائنسی اور تعلیمی شعبوں میں ہماری اچھی صورتحال ہے اور گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ان تمام شعبوں میں قابل قدر پیشرفت نظر آر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ایرانی قومی کی مزاحمت اور وفاداری ظاہر ہوتی ہے جنہوں نے ان دوسالوں کے دوران ملک کی خدمت کیلئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے۔
صدر روحانی نے ایرانی عظیم قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئندہ سال کے دوران بھی ترقی کے راستے پر گامزن ہوجائیں گے اور آئے دن ہم دشمن کو ایران سے مذاکرات کی میز پر بیھٹنے کیلئے مجبور کریں گے۔
ہرمز امن منصوبے اور اتحاد امید پر مُصر ہیں
انہوں نے ایرانی حکومت کیجانب سے تجویز کردہ امن منصوبے کے نفاذ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا اس بات پر واقف ہیں کہ ایران کے بغیر علاقے میں قیام امن اور استحکام ممکن نہیں ہوگا۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ہم بدستور خطے میں امن برقرار قرار کرنے کے خواہاں ہیں اور ایرانی قدرس فورس کے کمانڈر جنرل سلیمانی نے بھی آخری دم تک اس راستے کیلئے کوشش کی اور ان کی آخری کوشش بھی عراقی وزیر اعظم سے گفتگو تھی جو ان کی شہادت کی وجہ مسیر نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام خطی ممالک کو اقوام متحدہ میں پیش کردہ ہزمر امن منصوبے میں حصہ لینے کی دعوت دی ہے۔
ایران کا سعودی عرب سے کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے
انہوں نے سعودی عرب کیجانب سے ایران کو مذاکرات کے پیغام دینے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا ہے کہ بہت مختلف ممالک بشمول پاکستان اور حتی کہ یورپی ملکوں نے بھی سعودی عرب کیجانب سے ایران کو مذاکرات کرنے کا پیغام دیا۔
صدر روحانی نے کہا کہ ان تمام پیغاموں کا ایرانی جواب مثبت تھا اور ہم نے کہا کہ ہمارا سعودی عرب سے کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے اور جب وہ تیار ہو ہم حل طلب مسائل پر بات کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب خطے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا مسئلہ وہی مسئلہ یمن ہے اور ریاض نے یمن سے متعلق بہت بڑی غلطی کی۔
صدر روحانی نے کہا کہ سعودی حکام کا خیال تھا کہ وہ چند ہی ہفتوں کے اندر یمن کو اپنے سامنے ہتیھار ڈالنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور اس حوالے سے بہت بڑی غلطی کی اور یمنی عوام کیخلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب یمن کیخلاف جارحیت سے دستبردار ہوجائے تو مذاکرات کیلئے مناسب فضا کی فراہمی ہوگی۔
صدر روحانی نے اس بات پر زور دیا کہ یمنی مسئلہ یمنی عوام کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے اور وہ ممالک جنہوں نے یمن کیخلاف جارحیت کی ہیں وہ بھی اپنی اس جارحیت سے پیچھے ہٹ جائیں۔