اسلام آباد (ڈیلی اردو) اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ انہوں نے استعفیٰ صدر مملکت عارف علوی کو بھجواتے ہوئے فوری قبول کرنے کی درخواست کی ہے۔
انور منصور نے کہا کہ میں نے کل رات کو استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا جو آج بھیج دیا ہے۔ انور منصور نے بتایا کہ پاکستان بار کے مطالبے پر استعفیٰ دے رہا ہوں اور ان کے ساتھ مزید کام نہیں کروں گا۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف اٹارنی جنرل کے موقف سے لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کردیا۔
ترجمان وزارت قانون نے تحریری جواب عدالت میں جمع کراتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے موقف سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں، انہوں نے حکومتی ہدایات کے بغیر عدلیہ کے حوالے سے موقف اپنایا، وفاقی حکومت عدلیہ کا بہت احترام کرتی ہے اور آئین کی بالادستی و عدلیہ کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان،صدر عارف علوی،میری اور معاون برائے احتساب شہزاد اکبر کی جانب سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا گیا ہے، ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، انور منصور خان نے بغیر اجازت سپریم کورٹ میں اچانک بیان دیا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ ہم نے انور منصور خان سے استعفیٰ مانگا تو انہوں نے دے دیا، حکومت کی جانب سے ریفرنس میں دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے پیر کو جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں دلائل شروع کرتے ہوئے سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بنچ میں شامل ججز پر الزام لگایا کہ انہوں نے صدارتی ریفرنس کے خلاف مقدمے کی تیاری میں جسٹس فائز عیسیٰ کی مدد کی ہے اور انہیں مشورے دیے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل انورمنصور خان کے الزامات کو بلاجواز اور انتہائی سنگین قرار دیا۔ عدالت نے میڈیا کو بھی اس بیان کی رپورٹنگ سے روکتے ہوئے شائع کرنے سے منع کردیا۔
منگل کو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ بینچ سے متعلق اپنے بیان پر یا تو ثبوت پیش کریں یا معافی مانگیں۔ پاکستان بار کونسل نے بھی متنازع بیان پر اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی تھی۔
بار کونسل نے درخواست میں اٹارنی جنرل کی طرف سے ججز پر لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے الزام سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ججز کی جاسوسی کا عمل اب بھی جاری ہے، اٹارنی جنرل نے جان بوجھ کرکھلی عدالت میں یہ بات کہی۔