لاہور (ویب ڈیسک) انسانی حقوق کی علمبردار اور ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر 11 فروری۔2018 کو دل کا دورہ پڑنے سے 66 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں تھیں۔ان کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے۔
جرات مند خاتون عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی، 1980 میں لاہور ہائی کورٹ اور 1982 میں سپریم کورٹ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔وہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدربھی منتخب ہوئیں۔
عاصمہ جہانگیر کا نام ملکی سیاست کے افق پر بہت چھوٹی عمر میں ہی سامنے آ گیا جب دسمبر 1972 میں ان کے والد ملک غلام جیلانی کو اس وقت کے فوجی آمر یحییٰ خان کی حکومت نے مارشل لا قوانین کے تحت حراست میں لے لیا تھا۔ جس پر عاصمہ جہانگیر نے اپنے والد کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔
وہ پاکستان میں حقوقِ انسانی کی علمبردار اور سکیورٹی اداروں کی ناقد کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہیں۔حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں انھیں کئی دفعہ جیل کاسامناکرناپڑا اور نظر بندی کی سزا بھی سنائی گئی۔
جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں وہ جیل بھیجی گئیں اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بھی انہیں نظربند کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے عدلیہ بحالی کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔انھوں نے ہیومن رائٹس کمیشن اور ویمنز ایکشن فورم کی بنیاد بھی رکھی۔
عاصمہ جہانگیر کو پاکستان میں ہلالِ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جب کہ اقوام متحدہ نے سال 2018 کے لیے انسانی حقوق سے متعلق ایوارڈ مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے نام کیا۔اس کے علاوہ عاصمہ جہانگیر کو 1995 میں رامون میگ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اس ایوارڈ کو ایشیا کا نوبل انعام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
مرحومہ نے ایران میں اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی براے انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حیثیت سے بھی کام کیا۔