کابل + اسلام آباد (ڈیلی اردو) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں حزب وحدت اور شیعہ ہزارہ کے رہنما عبدالعلی مزاری کی برسی کی تقریب پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 32 افراد شہید اور 81 زخمی ہوگئے۔
تقریب میں افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سمیت سابق صدر حامد کرزئی اور دیگر اعلیٰ عہدیداران شریک تھے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حملہ اس وقت ہوا جب افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ محمد کریم خلیل تقریر کررہے تھے جب کہ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی اور دیگر اہم سیاسی رہنما بھی تقریب میں شریک تھے جو محفوظ رہے۔
ترجمان افغان وزارت داخلہ نصرت رحیمی نے حملے میں 32 افراد کی شہادت اور 81 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔
افغان میڈیا کا کہنا ہےکہ مسلح حملہ آور نے تقریب کے مقام کے قریب واقع زیر تعمیر عمارت سے حملہ کیا۔
افغان صدارتی ترجمان صادق صدیقی نے افغان حکومت کی جانب سے کابل حملے کی مذمت کرتے ہوئے حملے کو انسانیت کےخلاف جرم قرار دیا ہے۔
افغان میڈیا کا بتانا ہےکہ گزشتہ سال بھی اس تقریب پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 11 افراد شہید ہوئے تھے۔
عبدالعلی مزاری کون تھا؟
یہ تقریب ہزارہ شیعہ رہنما عبدالعلی مزاری کی برسی کے سلسلے میں منعقد کی گئی تھی جنہیں طالبان کی جانب سے قیدی بنائے جانے کے بعد 1995 میں قتل کردیا گیا تھا۔
طالبان کی حملے کی تردید
افغان میڈیا کے مطابق طالبان نے ٹوئٹر کے ذریعے حملے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی خبروں کو مسترد کردیا ہے۔
ترجمان افغان طالبان ذبیع اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے کابل میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق داعش کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دو حملہ آوروں نے مشین گنز، دستی بم اور راکٹ بموں کے ذریعے تقریب کو نشانہ بنایا۔
امریکا اور طالبان معاہدہ
واضح رہے کہ امریک اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ 29 فروری کو دوحہ میں طے پایا جس کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے بدلے طالبان کو ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں لیکن افغان صدر کی جانب سے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کے بعد طالبان نے انٹراافغان مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
طالبان نے کابل سے دوحہ بھیجے جانے والے 6 رکنی وفد سے ملاقات بھی نہیں کی اور کہا ملاقات صرف قیدیوں کی رہائی سے متعلق بااختیار افراد سے ہی کی جائے گی۔
معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔
معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔
افغان صدر کا شدید ردعمل
افغان صدر اشرف غنی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ یہ انسانیت اور افغانستان کے قومی اتحاد پر حملہ ہے۔
پاکستان کی جانب سے کابل حملے کی شدید مذمت
پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے جس کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور متعدد لوگ زخمی ہوگئے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ ہم غم کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اور شہدا کے لئے دعا میں شریک ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان و صد شکر ہے کہ حملے میں قائدین محفوظ رہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان تنازع کے مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کی حمایت کی ہے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ پاکستان تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ وہ تعمیری انداز سے مل کر کام کریں تاکہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام قائم ہوسکے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال بھی اس تقریب پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 11 افراد شہید ہوئے تھے۔
امن معاہدے کے چند گھنٹے بعد ہی افغان صدر اہم شرط سے پیچھے ہٹ گئے
واضح رہے کہ امریک اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ 29 فروری کو دوحہ میں طے پایا جس کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے بدلے طالبان کو ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں لیکن افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کے بعد طالبان نے انٹرا افغان مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
طالبان نے کابل سے دوحہ بھیجے جانے والے 6 رکنی وفد سے ملاقات بھی نہیں کی اور کہا ملاقات صرف قیدیوں کی رہائی سے متعلق بااختیار افراد سے ہی کی جائے گی۔
معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔
معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔
معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔