نئی دہلی (ویب ڈیسک) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اہم رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن سبرامنیم سوامی نے مسلم دشمنی میں حدیں پار کرلی ہیں اور حالیہ انٹرویو میں مسلمانوں کے حوالے سے کھل کر نفرت کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی روایتی مسلم اور پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اب حکمران جماعت کے اہم رہنما مغربی میڈیا کے سامنے بھی مسلمانوں کے خلاف کھل کر حقارت اور تعصب کا اظہار کررہے ہیں۔
India has been engulfed in riots after suddenly stripping nearly 2M people of their citizenship.@IsobelYeung travels to India to see how a newly-enacted law has signaled to India's 200M Muslims that they are the true target.
Watch #VICEonSHO Sunday at 8 PM ET on @Showtime. pic.twitter.com/gFjCEmu0bh
— VICE News (@VICENews) April 1, 2020
امریکی ٹی وی چینل وائس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں متنازع شہریت کے قانون کے حوالے سے بی جے پی کے راجیہ سبھا کے رکن سبرامینم سوامی کا کہنا تھا کہ جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے وہیں پریشانی ہوتی ہے۔
The RSS inspired BJP leadership in the 21st century openly speaking about the 200 million Muslims just as the Nazis spoke about the Jews. pic.twitter.com/MUiyqpgGDJ
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) April 3, 2020
وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس سے متاثرہ بی جے پی قیادت 21ویں صدی میں 200 ملین مسلمانوں کیخلاف کھلے عام وہی لب و لہجہ اختیار کئے ہوئے ہے جو نازیوں نے یہودیوں کیخلاف اپنایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد ہوتی ہے وہ ممالک خطرات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا مزید کہنا تھا کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 کی تشریح غلط کی جاتی ہے جس میں یقینی بنایا گیا ہے کہ برابری کے حقوق برابری والوں کو دیے جاتے ہیں۔
اس پر خاتون اینکر نے سوال کیا کہ کیا مسلمان برابر نہیں ہیں؟ اس پر سبرامینم نے ڈھٹائی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں، مسلمان نہ ہندوؤں کے برابر ہیں اور نہ ہی مساوی حقوق کے حق دار ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی ٹی وی کو دیا گیا متنازع انٹرویو اتوار کو نشر کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے جن میں 25 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پر بھی بھارتی انتہاپسندوں نے دہلی میں قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر حملے کیے تھے۔
اِن حملوں میں 45 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی جنہیں شناخت کرکے مارا گیا۔
متنازع شہریت قانون کیا ہے؟
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا جس کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) سے بھی یہ کثرت رائے سے منظور ہوا۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد اب ایک باقاعدہ قانون کا حصہ ہے۔