اسلام آباد (ڈیلی اردو) چینی اور آٹا بحران سے متعلق رپورٹ میں انکشافات کے بعد ملک میں ایک سیاسی ہلچل مچ گئی ہے۔ مخدوم خسرو بختیار اور حماد اظہر سمیت کئی وفاقی وزرا کے قلمدان تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
جہانگیر ترین کو چیئرمین ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جبکہ خسرو بختیار سے فوڈ سیکیورٹی کی وزارت لے لی گئی، رزاق داؤد کو شوگر ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اور مشیر صنعت و پیداوارکے عہدے سے ہٹا دیا گيا البتہ وہ بطور مشیر تجارت کام کرتے رہیں گے۔
ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کو آٹا اور چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد ہٹایا گيا، جہانگیر ترین کے خلاف مزید کارروائی انکوائری کمیٹی کی سفارشات کے بعد ہوگی۔
اس کے علاوہ وزیراعظم نے متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ بھی بالآخر منظور کرلیا۔
فخر امام وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی مقرر
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک اور تحقیق خسرو بختیار کا قلمدان تبدیل کرتے ہوئے انہیں وزارت اقتصادی امور دے دی گئی ہے جبکہ ان کی جگہ فخر امام کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ بھی قبول کرلیا ہے تاہم ایم کیو ایم کے امین الحق کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے جنہیں وفاقی وزیر برائے ٹیلی کام مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر حماد اظہر کو وزارت صنعت کا قلمدان دیا گیا ہے، اس سے قبل وہ اقتصادی امور کے وزیر تھے جبکہ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی کو نارکوٹکس کنٹرول کا قلمدان دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم خان سواتی کو وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ بابر اعوان کو مشیرِ پارلیمانی امور تعینات کر دیا گیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی کا وزارتِ ٹیلی کام سے استعفیٰ قبول کرتے ہوئے ان کی جگہ انھیں کی جماعت کے امین الحق کو یہ قلمدان دے دیا گیا ہے۔
اسی طرح وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری نے وزیرِ اعلیٰ سردار عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔
اسی طرح وزیرِ اعلیٰ نے نسیم صادق کی کمشنر ڈیرہ غازی خان کے عہدے سے علیحدہ کرنے کی درخواست بھی قبول کرتے ہوئے انھیں او ایس ڈی بنا دیا ہے۔
نسیم صادق نے ایف آئی اے رپورٹ آنے کے بعد عہدے سے الگ کرنے کی درخواست کی تھی۔
دریں اثنا پنجاب کے سابق ڈائریکٹر فوڈ ظفر اقبال کو بھی او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وفاقی حکومت کو دسمبر 2019 اور جنوری 2020 میں آٹے اور چینی کے بحران پر تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
ذرائع کے مطابق عبدالرزاق داؤد نے بطور چیئرمین شوگر ایڈوائزری بورڈ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کی سفارش کی جبکہ بطور وزیرخزانہ اسد عمر نے ای سی سی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے 11 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ نے ای سی سی کے فیصلوں کی توثیق کی۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سیکرٹری وزارت تحفظ خوراک و تحقیق ہاشم پوپلزئی کو ہٹاتے ہوئے عمر حمید کو ان کی جگہ تعینات کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 4 اپریل کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آٹا و چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تھی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔
رپورٹ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 25 اپریل کو فرانزک رپورٹ ملنے کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔