کوئٹہ (ڈیلی اردو) بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں اکیس جنوری کو پیش آنیوالے ہولناک ٹریفک حادثے کی تحقیقات کیلئے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی ہے۔
رپورٹ میں حادثے کی ذمہ دار بس اور ٹرک ڈرائیور پر عائد کی گئی ہے جنہوں نے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کی۔ رپورٹ میں حادثات کی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی پر بھی عائد کی گئی ہے جو سڑکوں کی مرمت ،موڑوں کو آسان بنانے اور معلوماتی سائن بورڈ آویزاں کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کررہی۔ رپورٹ میں آر سی ڈی شاہراہ کو دو رویہ کرنے سمیت سڑک حادثات بچنے کیلے قلیل اور طویل مدتی تجاویز دی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لسبیلہ کے علاقے بیلہ میں اکیس جنوری کو کراچی سے پنجگو رجانیوالی مسافر بس اور مخالف سمت سے آنیوالے ٹرک میں ہولناک تصادم ہوا تھا جس کے بعد بس اور ٹرک میں آگ بھڑک اٹھی تھی اور 28 افراد جھلس کر جاں بحق اور درجن سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان نے حادثے کی تحقیقات کیلئے کمشنر قلات ڈویڑن بشیر احمد بنگلزئی کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی(جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔ کمیٹی میں ڈی آئی جی قلات ، ڈپٹی کمشنر لسبیلہ اور ایس ایس پی لسبیلہ بھی شامل تھے۔
کمیٹی کو حادثے کی وجوہات معلوم کرنے،ذمہ داران کا تعین کرنے اور مستقل میں حادثات کے تدارک کیلئے سفارشات مرتب کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ پانچ رکنی کمیٹی نے حادثے کی جگہ کا دورہ کیا۔ حادثے میں بچ جانیوالے افراد، عینی شاہدین اور دیگر متعلقہ حکام کے بیانات قلمبند کئے اور اس کے بعد اپنی ابتدائی رپورٹ تیار کرکے محکمہ داخلہ و قبائلی امور بلوچستان کو ارسال کردی۔
کمشنر قلات ڈویڑن بشیر احمد بنگلزئی نے بتایا کہ حادثے کی ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ مسافر بس اور ٹرک ڈرائیور دونوں نے بے احتیاطی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ٹرک شاہراہ پر مڑ رہا تھا اور اس نے سڑک کا بیشتر حادثہ گھیر لیا تھا اس دوران تیزی سے آتی ہوئی بس ڈرائیور سے قابو نہ ہوپائی اور دونوں گاڑیوں میں ٹکر ہوگئی۔ مسافر بس اورٹرک میں پٹرول اور ڈیزل موجود نہیں تھا۔
بس ٹرک کے بیٹڑی اور فیول ٹینک والے حصہ سے ٹکرائی بس کا کمپریسر بھی اگلے حصے میں ہوتا ہیاس لئے ہمارا اندازہ ہے کہ آگ بس اور ٹرک کے ٹکرانے کے دوران چنگاری اٹھنے سے لگی۔ بس حادثے کے بعد الٹ گئی تھی اوراس کا دروازہ بند ہوگیا تھا۔بس میں ایمرجنسی دروازہ بھی موجود نہیں تھاجس کی وجہ سے مسافروں کی اکثریت اندر پھنس گئی تھی۔چند مسافروں نے پچھلے شیشے سے نیچے کھود کر جانیں بچائیں۔
کمشنر قلات ڈویڑن نے یہ بھی بتایا کہ بس میں بڑی تعداد میں مچھلیاں اور سامان لدا ہوا تھا جو مسافروں کے باہر نکلنے کی راہ میں رکاوٹ بنا۔ انہوں نے کہا کہ حادثے کی جگہ سے شواہد اکٹھے کرکے تجزیہ کیلئے فارنزک لیبارٹری بھیجے گئے ہیں جن کی رپورٹ آنے کے بعد حتمی وجوہات سامنے آئیں گی۔
پانچ صفحات پر مشتمل ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بس ڈرائیور غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اوروقت کی بچت کیلئے سپیڈ بریکر اور چھوٹے موڑوں کو نظر انداز کرتے ہیں جس کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔ اسی طرح مسافر بسوں میں حد سے زیادہ سامان لادنا بھی انسانی جانوں کیلئے خطرات کا باعث ہے۔زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے ڈرائیور کیلئے بس کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے داخلی راستوں پر ان مسافروں بسوں پر نظر نہیں رکھی جاتی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ایچ اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ شاہراہ پر پڑنے والے گڑھوں، موڑوں اور خراب مقامات کی مرمت کریں۔پل اورتعمیراتی کام والے مقامات پر معلوماتی بورڈ آویزاں کریں۔ این ایچ اے کی جانب سے آر سی ڈی شاہراہ پر اچانک موڑ، رفتار کی حد اور دیگر ٹریفک قوانین اور سڑک کی ہیئت سے متعلق آگاہی کیلئے سائن بورڈ انتہائی کم تعداد میں آویزاں کئے گئے ہیں۔کمشنر دفتر کی جانب سے ہدایات جاری ہونے کے باوجود اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
آر سی ڈی شاہراہ لسبیلہ، خضدار اور قلات کے پہاڑی علاقوں سے گزرتی ہے۔ اچانک سامنے آنے والے موڑ حادثات کی وجہ بنتے ہیں۔ حادثات سے بچنے کیلئے انجینئرنگ ڈیزائن کی مدد سے موڑوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیز مسافر گاڑیوں کی مینٹینس پر بھی توجہ نہیں دیتی۔رپورٹ میں آر سی ڈی شاہراہ پر حادثات کے روک تھام کیلئے طویل اور قلیل مدتی سفارشات بھی دی گئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اس شاہراہ پر حد رفتار اورٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں موٹروے پولیس کے دائرہ کار کو حب چوکی سے مستونگ تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایسے نئے قواعد و ضوابط بنائے جائیں تاکہ مسافر بسوں میں سامان ، ڈیزل اور پٹرول کی ترسیل پر پابندی کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے عائد کئے جاسکے۔ مسافر گاڑیوں کی رفتار مقررہ حد سے زیادہ نہ ہو اورڈرائیور نشے کی حالت میں نہ ہوں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
مسافر گاڑیوں میں آگ بجھانے کے آلات رکھے جائیں۔ آر سی ڈی شاہراہ پر حب سے لیکر مستونگ تک مختلف مقامات پر ایمرجنسی ہیلتھ سینٹر،ایمبولنس ،فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122 سروس فراہم کرنے کی ضرورت ہیتاکہ حادثات کی صورت میں زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جاسکے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے صنعتی دار الحکومت کراچی سے صوبے کو جوڑنے والی آر سی ڈی شاہراہ بلوچستان کے لوگوں کیلئے لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد صحت، تعلیم اور کاروبار کیلئے کراچی کا رخ کرتی ہے۔
اس شاہراہ پر روزانہ تقریباً آٹھ ہزار کے قریب چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں جن میں دو ہزار سے زائد ٹرک اور گیارہ سو سے زائد مسافر بسیں شامل ہوتی ہیں۔ ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کیلئے اس شاہراہ کو جلد از جلد دو رویہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اس سڑک کی توسیع کا منصوبہ وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حصہ تھا مگر پھر اس منصوبے کو منسوخ کیا گیا۔ اس منصوبے کو دوبارہ زیر غور لانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی، موٹر وے پولیس اور ہیلتھ مینجمنٹ کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔کمیٹی کے سربراہ کے مطابق فارنزک رپورٹ موصول ہونے کے بعد رپورٹ کو حتمی شکل دی جائے گی۔