ڈھاکہ (ڈیلی اردو/وائس آف امریکا) بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے مرتکب سابق فوجی افسر کپٹن عبدالمجید کو دارالحکومت ڈھاکہ میں اتوار کی صبح پھانسی دے دی گئی ہے۔
فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق ملزم فوج میں کپتان تھا اور اسے واقعے کے 25 سال بعد منگل 7 اپریل کو گرفتار گیا تھا تاہم اسے حراست میں لیے جانے سے ایک ہفتے کے اندر اندر پھانسی دے دی گئی۔
موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمٰن، بنگلہ دیش کے قیام کے تقریباً 4 سال بعد 15 اگست 1975 کو ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں مارے گئے تھے۔
ملزم عبدالمجید کو قتل کے الزام میں ایک درجن سے زائد افسران کے ساتھ 1998 میں ان کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے سن 2009 میں اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے پانچ ملزمان کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا تھا جن میں کئی افراد کو کچھ عرصہ پہلے پھانسی ہوچکی ہے۔
کپٹین ریٹائرڈ عبدالمجید کو انسداد دہشت گردی پولیس نے منگل 7 اپریل کی صبح ڈھاکہ میں رکشہ سے فرار کی کوشش کے دوران گرفتار کیا تھا۔
بنگلہ دیش کے وزیر قانون انیس الحق نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ جیل حکام نے صدر کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد ہونے پر عبدالمجید کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب 12 بج کر ایک منٹ پر دھاکہ کے مضافات میں واقع سب سے بڑی جیل میں پھانسی دی۔
عبدالمجید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 1996 میں بھارت فرار ہوگیا تھا اور پچھلے مہینے ہی بنگلہ دیش واپس آیا تھا۔
بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں عبدالمجید کی گرفتاری کو شیخ مجیب الرحمٰن کی صد سالہ زندگی کا بہتر تحفہ قرار دیا تھا۔
ہفتے کی شام عبدالمجید کے اہل خانہ نے ان سے آخری ملاقات کی۔ عبدالمجید کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ فوجی ملازمت سے برطرف کئے جانے کے بعد بھی عبدالمجید کئی سرکاری عہدوں پر کام کرتا رہا تھا۔
ڈھاکہ پولیس چیف معروف حسین سردار نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ کیرانی گنج جہاں یہ جیل واقع ہے وہاں اور اس کے اطرافی علاقوں میں سیکیورٹی سخت کرتے ہوئے جیل کے ارد گرد پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم حسینہ 1975 میں اپنے والد پر حملے کے وقت اپنی بہن کے ہمراہ یورپ میں تھیں۔
پھانسی پر عمل درآمد کے بعد عبدالمجید کو اس کے آبائی علاقے نارائن گنج ،سونار گاؤں میں اتوار کو الصبح سپرد خاک کردیا گیا۔