برلن (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسیاں) جرمنی میں سیکیورٹی فورسز نے بدھ کو دولت اسلامیہ (داعش) سے وابستہ پانچ ارکان کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔ ان پر جرمنی میں امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ گروہ بندوقوں اور بارود سے مسلح تھا۔ ان کے قبضے سے دھماکہ خیز ڈوائسز تیار کرنے کی نوعیت کا مواد بھی برآمد کیا گیا۔
استغاثہ نے بتایا ہے کہ دہشت گرد گروہ نے مبینہ طور پر جرمنی میں قائم امریکی فضائی افواج کے اڈوں کی نشاندہی کی سازش مکمل کرلی تھی۔
بیان کے مطابق مبینہ دہشت گردوں کی گرفتاری گزشتہ ماہ عمل میں لائی گئی۔ ان میں سے چار کی شناخت ظاہر کی گئی ہے جبکہ پانچواں ملزم بھی پولیس کی تحویل میں ہے۔ ان کا تعلق تاجکستان سے بتایا جاتا ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال داعش میں شامل ہونے کے بعد جرمنی میں ایک دہشت گرد گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔
حکام نے بتایا ہے کہ ان دہشت گردوں کا شام اور افغانستان کے داعش کے مبینہ ارکان کے ساتھ مسلسل رابطہ تھا، جہاں سے انھیں ہدایات موصول ہوتی تھیں۔
نیوز ایجنسی اے پی نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ چاروں گرفتار شدگان جنوری 2019ء میں دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش میں شامل ہوئے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ جرمنی میں دہشت گردی کے لیے ایک ‘سیل‘ قائم کریں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ان ملزمان نے پہلے تاجکستان میں ایک حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اپنے حملوں کے لیے جرمنی کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ مبینہ شدت پسند جن اہداف کو نشانہ بنانا چاہتے تھے، ان میں امریکی فوج کا ایک فضائی اڈہ بھی شامل ہے اور ایک ایسی شخصیت بھی جسے اسلام کی ناقد سمجھا جاتا ہے۔
دفتر استغاثہ کے مطابق ان مشتبہ شدت پسندوں کا تعلق تاجکستان سے ہے اور ان کی شناخت عزیز جان، محمد علی، فرہاد اور سنت اللہ کے طور پر کی گئی ہے۔ جرمن حکام نے ان میں سے کسی بھی ملزم کی مکمل ذاتی شناخت ظاہر نہی کی، جس کی وجہ جرمنی میں نافذ پرائیویسی رائٹس کے تحفظ کا ملکی قانون ہے۔
ان چاروں تاجک ملزمان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ شام اور افغانستان میں داعش کے دو سرکردہ شدت پسند رہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطوں میں تھے۔
جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق شدت پسندوں کے اس گروہ نے مسلح حملوں کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے گولہ بارود اور آتشیں ہتھیار بھی حاصل کر لیے تھے۔ اس کے علاوہ اس گروہ کے ارکان کو جو دھماکا خیز مواد تیار کرنا تھا، اس کی خاطر کیمیائی اجزاء کا آرڈر اس گروپ کے مبینہ سربراہ رضوان نے دیا تھا۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشتبہ دہشت گردوں کے اس گروہ نے اپنے ارادوں پر عمل درآمد کے لیے مالی وسائل اس طرح حاصل کیے تھے کہ گروہ کے مبینہ سربراہ رضوان نے البانیہ میں کسی کو قتل کرنے کے لیے 40 ہزار امریکی ڈالر وصول کیے تھے لیکن کرائے پر قتل کا یہ منصوبہ ناکام رہا تھا۔