امریکا میں ‘داعش’ کی معاونت کے الزام میں ایک اور پاکستانی ڈاکٹر گرفتار

واشنگٹن + اسلام آباد (ش ح ط/نیوز ایجنسیاں) امریکی ریاست منیسوٹا میں ایک اور پاکستانی ڈاکٹر کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا جو میو کلینک کے سابق ریسرچ کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ گرفتار شخص نے فیڈرل بورڈ آف انویسٹی گیشن(ایف بی آئی)کے مخبروں کو بتایا تھا کہ انہوں نے اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے ساتھ وفاداری کا عزم کیا ہے اور امریکا میں حملے کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد مسعود کی عمر 28 سال ہے جنہیں ایف بی آئی اے اہلکاروں نے مینیاپولیس کے سینٹ پال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے گرفتار کیا۔ بعد ازاں منیا پولیس، منی سوٹا کے یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ کے مجسٹریٹ جج ڈیوڈ شلنز کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور ان پر عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کو مادی معاونت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

پراسیکوٹرز کا کہنا تھا کہ محمد مسعود امریکا میں ورک ویزا پر ٹھہرے ہوئے تھے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ جنوری کے آغاز میں ڈاکٹر محمد مسعود نے مخبروں کو کئی بیانات دیے جنہیں وہ داعش کے اراکین سمجھے تھے اور اس کے ساتھ اس گروہ اور اس کے سربراہ کے ساتھ وفاداری کا عہد بھی کیا۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ڈاکٹر محمد مسعود نے اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے لیے لڑنے کی خاطر شام جانے اور امریکا میں حملے کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ ایف بی آئی کے بیان حلفی کے مطابق ایک موقع پر مسعود نے مخبر کو پیغام بھیجا کہ ʼمیں یہاں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں، آپ جانتے ہیں خود سے حملے لیکن میں نے اندازہ لگایا ہے کہ مجھے بہنوں، بھائیوں اور بچوں کی مدد کے لیے میدان میں ہونا چاہئےʼ۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ انہوں نے 21 فروری کو شگاگو سے امان اور اردن جانے کا ٹکٹ خریدا اور اس کے بعد وہاں سے شام جانے کا منصوبہ بنایا۔ ان کا مارچ کے اواخر میں امریکا سے جانے کا ارادہ تھا لیکن 16 مارچ کو انہیں اپنا سفری منصوبہ تبدیل کرنا پڑا کیوں کہ کورونا وائرس کے سبب اردن نے اپنی سرحد بند کردی تھی۔

اس کے بعد مسعود اور ان کے ساتھ ایک مخبر نے مینیا پولیس سے لاس اینجلس جانے کا منصوبہ بنایا جہاں اس مخبر سے ملاقات کرنی تھی جس کے بارے میں مسعود سمجھتے تھے کہ وہ مال بردار جہاز سے داعش کے خطے تک جانے میں مدد کرے گا۔ تاہم جب مسعود نے لاس اینجلس کی پرواز کے لیے ایئرپورٹ پر چیک ان کیا تو انہیں گرفتار کرلیا گیا، ان کی وکیل مینی اتوال کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتیں۔

عدالتی دستاویز میں اس کلینک کا نام نہیں بتایا گیا جہاں مسعود کام کررہے تھے لیکن لنکڈ ان پر اسی نام کے شخص جس کی سفری معلومات بھی یکساں تھیں کے اکاؤنٹ پر لکھا ہوا تھا کہ مسعود فروری 2018 سے منیسوٹا کے روسچیسٹر کے میو کلینک میں کام کررہے تھے، جو پہلے ایک ریسرچ ٹرینی تھے لیکن گزشتہ برس مئی سے کلینیکل ریسرچ کوآرڈینیٹر بن گئے تھے۔

ریسرچ گیٹ ڈاٹ نیٹ پر موجود ایک پروفائل میں لکھا تھا کہ انہوں نے کارڈیا لوجی میں ریسرچ کی ہے ایک آن لائن کلینڈر ایونٹ کے مطابق انہیں اکتوبر 2018 میں میو کلینک اسکول آف کنٹینیوس پروفیشنل ڈیولپمنٹ کے سامنے اپنی ریسرچ پیش کرنی تھی۔

میو کلینک کے ترجمان جنجر پلمبو نے کہا کہ مسعود نے پہلے اس طبی مرکز میں کام کیا تھا لیکن ‘وہ گرفتاری کے وقت میو کلینک کے ملازم نہیں تھے’۔

مجرمانہ درخواست کی حمایت کرنے والے ایک ببان حلفی کے مطابق مسعود نے فروری میں کہا تھا کہ وہ اپنے آجر کو بتانے والے ہیں کہ 17 مارچ ان کی ملازمت کا آخری دن ہوگا۔

بیان حلفی میں یہ بھی کہا گیا کہ ایف بی آئی نے جنوری میں اس وقت تحقیقات کا آغاز کیا جب انہیں معلوم ہوا کہ مسعود نے ایک انکرپٹڈ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایسا پیغام دیا ہے جس سے داعش کی حمایت کا تاثر ابھرتا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستانی نژاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی امریکا میں دہشت گردی کے ایک مقدمہ میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔

خلیج گوانتانامو میں امریکی حراستی مرکز کے قیدیوں کی خفیہ فائلوں سے ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش اور القاعدہ کو بائیولوجیکل ہتھیار بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی۔

یہ الزامات امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے اور القاعدہ کے کم از کم تین سینیئر ارکان سے براہ راست تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں لگائے گئے۔ ان ارکان میں امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی شامل تھے۔

خالد شیخ محمد کو جنہیں انٹیلیجنس حلقوں میں ’ کے ایس ایم‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے دوران حراست ایک سو تراسی مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن گوانتانامو کے حراستی مرکز کے کئی قیدیوں کے بیانات ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں جن سے القاعدہ کے کچھ اعلیٰ سطح کے ارکان کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق ظاہر ہوتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ان بیانات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایف بی آئی نے 2004 میں کیوں ڈاکٹر عافیہ کو القاعدہ کے سات انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

گوانتانامو کی فائیلوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ 2002 اور 2003 کے دوران کراچی میں القاعدہ کے سیل میں شامل تھیں اور اس سیل کے ارکان نے جو گیارہ ستمبر کے حملوں کی کامیابی کی وجہ سے بہت پر اعتماد تھے امریکہ، لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور پاکستان میں مزید حملوں کے منصوبے بنائے۔

ڈاکٹر عافیہ ماجد خان نامی شخص کی امریکی سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کرنے 2003 میں امریکہ گئیں۔ ماجد خان کو امریکہ میں پیٹرول پمپز اور پانی صاف کرنے والی تنصیبات پر بموں سے حملے کرنے تھے۔

دستاویزات کے مطابق اس سیل کے ارکان نے ٹیکسٹائل اشیا برآمد کرنے کی آڑ میں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خالد شیخ محمد کے بیان کے مطابق اس دھماکہ خیز مواد سے امریکہ میں اہم معاشی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ آپریشن امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کے ذریعے انجام دیا جانا تھا جو ایک پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ چلاتے تھے۔

گوانتانامو کے حراستی مرکز میں سیف اللہ پراچہ کی فائل کے مطابق اس منصوبے میں ان کی ذمہ داری کرائے کے گھر حاصل کرنا اور انتظامی تعاون فراہم کرنا تھی۔

ڈاکٹر عافیہ اسی آپریشن کے سلسلے میں ماجد خان نامی شخص کی امریکی سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے دو ہزار تین میں امریکہ گئیں۔ ماجد خان کو امریکہ میں پیٹرول پمپز اور پانی صاف کرنے والی تنصیبات پر بموں سے حملے کرنے تھے۔

ماجد خان کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنے امریکہ سفر کو ممکن بنانے کے لیے ڈاکٹر عافیہ کو رقم ، تصاویر اور امریکہ میں پناہ کی درخواست کے لیے فارم بھر کر دیا۔

ڈاکٹر عافیہ نے امریکہ جانے کے بعد وہاں ماجد خان کے نام سے ایک پوسٹ آفس بکس کھولا جس کے لیے انہوں نے اپنے ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس استعمال کیا۔

یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جب ماجد خان پاکستان میں گرفتار ہو گئے اور انہیں گوانتانامو کے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔ جب کہ اس منصوبے میں شامل ایک اور شخص عضیر پراچہ پوسٹ آفس بکس کی چابی کے ساتھ پکڑا گیا۔

عضیر پراچہ کو جو سیف اللہ پراچہ کے بیٹے ہیں دو ہزار چھ میں تیس برس قید کی سزا سنائی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کے دہشت گردی کے منصوبوں میں شامل ہونے کے بارے میں زیادہ تر معلومات عضیر پراچہ کے مقدمے کے دوران سامنے آئیں۔

ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں اور پانچ برس بعد افغانستان کے صوبے غزنی کے علاقے میں منظر عام پر آئیں۔

نیویارک میں ایف بی آئی اور نیویارک کے اس وقت کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے جاری کیئے جانے والے ایک بیان میں کہاگیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ کو ایک ماہ قبل افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عافیہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اٹھارہ جولائی کو ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک تفتیشی ٹیم پر ایک فوجی کی بندوق چھین کر فائرنگ کر دی تھی۔ اس ٹیم میں شامل ایک امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ اور اس کے بعد کشمکش میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئی تھیں۔

اس بیان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ ایف بی آئی کو کافی عرصے سے دہشت گردی کے الزامات میں مطلوب تھیں۔

اس بیان میں دی گئی تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو غزنی میں گورنر کی رہائش گاہ کے احاطے سے افغان پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔

اس بیان میں کہا گیا ڈاکٹر عافیہ ایک کمرے میں بند تھیں۔ جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انہوں نے پردے کے پیچھے سے ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔

ان پر امریکہ میں مقدمہ چلایا گیا اور 23 ستمبر، 2010ء میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں