سوئیڈن میں دو ماہ سے لاپتہ ہونے والے پاکستانی صحافی ساجد حسین بلوچ کی لاش برآمد

کوئٹہ (ڈیلی اردو) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے کیچ سے تعلق رکھنے والے صحافی ساجد حسین بلوچ کی لاش اوپسالہ کے دریا سے مل گئی، تفصیلات کے مطابق 2 مارچ 2020 سے سوئیڈن کے شہر سے لاپتہ ہونے والے بلوچ صحافی ساجد بلوچ کی لاش برآمد، سوئیڈش حکام نے اہلخانہ کو بتایا کہ انہیں اوپسالہ کے دریا سے ساجد بلوچ کی لاش ملی ہے۔

ساجد بلوچ سوئیڈن کی اْپسالہ یونیورسٹی میں ماسٹرز کا کورس کر رہے تھے۔ اس کی خاطر انھوں نے حال ہی میں سٹاک ہوم سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع شہر اْپسالہ میں ایک ہاسٹل میں کمرہ کرائے پر لیا تھا۔ 2 مارچ سے ساجد ہاسٹل میں شفٹ ہونے کے بعد سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ اْن کے دوستوں نے پولیس میں 3 مارچ کو رپورٹ درج کرائی اور مقامی پولیس نے باقاعدہ طور پر 5 مارچ کو کام شروع کیا۔

پولیس کی ترجمان کے مطابق ہاسٹل کے کمرے سے ساجد کا بیگ اور لیپ ٹاپ ملا ہے جبکہ سفر کے کاغذات جیسے کہ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات غائب تھے۔ساجد کی گمشدگی کی اطلاع اْپسالہ یونیورسٹی کی ایرانی زبان کی پروفیسر کرینہ جہانی نے 2 مارچ کو پولیس کو دی۔کرینہ اور ساجد پچھلے کئی ماہ سے بلوچی اور انگریزی زبان کی لغت تیار کرنے میں مصروف تھے۔

ساجد حسین بلوچ نے 2012ء میں پاکستان چھوڑ کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی اور 2017ء میں وہ سویڈن میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ پاکستان چھوڑنے کی وجہ صوبہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک سے متعلق ان کی رپورٹنگ کے سبب انہیں ملنے والی دھمکیاں تھیں۔

ساجد بلوچ 2017 میں سوئیڈن کے اْپسالہ یونیورسٹی میں ایرانی زبان میں ماسٹرز کررہے تھے۔ ساجد نے 2019 میں سوئیڈن میں پناہ لینے کے لیے درخواست دی جو قبول ہوچکی تھی۔ مارچ سے پہلے تک ساجد اپنے ایک دوست کے ساتھ سٹاک ہوم میں رہ رہے تھے اور اْپسالہ آنے کا فیصلہ انھوں نے یونیورسٹی سے نزدیکی کی بنیاد پر لیا۔

دو روز قبل فریڈم نیٹ ورک پاکستان نے سالانہ رپورٹ جاری کی جسکے مطابق، گزشتہ ایک سال میں زبانی اور تحریری طور پر صحافیوں کو دھمکانے کے 23 کیسز سامنے آئے۔ اس کے ساتھ 13 کیسز میں صحافیوں کو ہراساں کیا گیا۔ 11 واقعات میں صحافیوں پر حملے ہوئے جن میں 7 صحافی قتل ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں پاکستان میں 2 صحافی اغوا، 9 گرفتار جب کہ 10 کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

2002 سے 2020 تک کل 130 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ لیکن، ان میں سے صرف چار کیسز میں قانونی کارروائی کی گئی اور ان میں بھی سزائیں نہیں مل سکیں۔

ایک سال کے رپورٹ 91 کیسز میں سے 63 الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے خلاف تھے جبکہ پرنٹ میڈیا کے بھی 25 افراد کے خلاف کیس سامنے آئے، مزید یہ کہ آن لائن صحافیوں کے 3 جبکہ ریڈیو سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کوئی کیس درج نہیں ہوا۔

پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ سن 2020 کے پریس فریڈم انڈکس کے مطابق، 180 ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 145واں ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں