اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاون کراچی سے متعلق عمل درآمد کیس کی سماعت کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو(نیب)کو کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیاہے اور قرار دیا ہے کہ عدالتی کارروائی نیب کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی اسپیشل بینچ نے منگل کو بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد کیس کی سماعت کرتے ہوئے بحریہ ٹائون کے ساتھ پلاٹس کی بکنگ کے لین دین میں منسلک کمپنیوں پرزم، کوس موس اور ٹرائی سٹار پرائیوٹ لمٹید کے مالکان کو پہلے دن سے اب تک کے پلاٹس کی بکنگ اور ٹرانزکشنز کا تمام ریکارڈ پیش کرنے اور ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا حکم دیا، بحریہ ٹائون کو ہدایت کی گئی کہ وہ الگ سے تمام ڈیٹا عدالت کوفراہم کریں۔
عدالت نے اگلی سماعت پر بھی کمپنیوں کے مالکان کو خود پیش ہونے کی ہدایت کی اور ابزرویشن دی کہ خود پیش نہیں ہوئے تو کمپنیوں کے مالکان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں گے۔
دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریما رکس دیے کہ ہم نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ پلاٹس کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے مالکان کو اپنی مدد کے لئے بلایا ہے اگر یہ عدالت کی مدد نہیں لریں گے تو دیگر طریقے استعمال کئے جائیں گے۔
جسٹس شیخ نے کمپنیوں کے مالکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آبیل مجھے مار والا کام نہ کرے،ڈیٹا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا گیا تو خود مالکان کے لئے مسئلہ بنے گا، کمپنیوں کے کمپیوٹرز اور ریکارڈ اٹھا کر عدالت میں لے آئیں گے۔
دوران سماعت عدالت کے استفسار پر پراسکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ بحریہ ٹائون کراچی کیس میں ریفرنس تیار ہے لیکن عدالتی کارروائی کی وجہ سے مزید کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ عدالت نے بحریہ ٹائون کو پیشکش کی ہے جس پر عدالت نے کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ عدالتی کارروائی نیب کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل اظہر صدیق نے کوئی آرڈر جاری نہ کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ اس سے مارکیٹ پر اثر پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر موجود نہیں اس لئے سماعت ایک دن کے ملتوی کردی جائے اور کوئی آرڈر جاری نہ کیا جائے جس پر جسٹس شیخ نے کہا کہ بحریہ ٹائون سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ عدالت کو کہے کہ کوئی وڑڈر جاری نہ کرے لیکن ہم کوئی آرڈر جاری نہیں کررہے بلکہ نیب کو کہہ رہے ہیں کہ اپنا کام کرے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں بینچ نے کیس کی سماعت کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہم بحریہ ٹاون کے ڈیلرز کو ملزمان کے طور پر نہیں بلا رہے، ڈیلرز کو عدالتی معاونت کے لیے بلایا جا رہا ہے کہ آکر عدالت کی معا ونت کر یں،عدالت نے گزشتہ سماعت پر بھی ان ڈیلرز کو پیش ہو نے کا حکم دیا تھا تا ہم وہ پیش نہ ہوئے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے ڈیلرز کے پیش نہ ہونے پر کہا کہ اگر ڈیلرز مجرم بن کر آنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیتے ہیں۔ انھوں نے پلاٹوں کی مارکیٹنگ کرنے والے ڈیلرز سے کہا کہ اگر آپ سے عدالت کی معاونت نہیں ہو سکتی ہو ہم کسی اور کو کہہ دیتے ہیں، آ بیل مجھے مار والا کام نہ کریں۔
دوران سماعت بحریہ ٹاون کے وکیل اظہر صدیق نے بار بار مداخلت کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جو آپ کا مسئلہ نہیں ہے اسے اپنا مسئلہ نہ بنائیں۔
بحریہ ٹاون کے وکیل نے ایک موقع پر سپریم کورٹ سے کیس کی سماعت پرسوں تک ملتوی کرنے کی استدعا کی تو جسٹس عظمت نے کہا کہ چودہ فروری کو تو ویلنٹائن ڈے نہیں؟ فاضل جج نے وکلا سے ہلے پھلکے انداز میں گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے موکلان نے ہمیں تنگ کیا تو ہم نیب پراسیکیوٹر سے شکایت کریں گے۔
جسٹس شیخ نے جب پراسکیوٹر جنرل نیب کو کہا کہ وہ ریفرنس نہ روکے تو بحریہ ٹاؤن کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہم نے نیب کی رپورٹ پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
جس پر جسٹس شیخ نے کہا کہ نیب کی رپورٹ درست ہے یا غلط اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں،رپورٹ پر فیصلہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے،اگر ہم نیب کی رپورٹ پڑھ کر فیصلہ کریں گے تو پھر سزا بھی دیں گے، اسلئے بہتر ہے کہ آپ جانیں اور احتساب عدالت۔وکیل نے کہا کہ نیب کا نام آتا ہے تو تو مارکیٹ کی فضا تبدیل ہوجاتی ہے اور کاروبار پر برا ثر پڑتا ہے۔
عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی طرف سے سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 14 فروری تک ملتوی کر دی۔