اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے احمدیوں (قادیانیوں) کو اقلیتی کمیشن میں شامل نہ کرنے کے خلاف دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے شہداء فاؤنڈیشن لال مسجد کی درخواست پر سماعت کی۔
اس موقع پر طارق اسد ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ اقلیتی کمیشن میں تمام اقلیتوں کو شامل کیا جانا چاہیے، کابینہ نے قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہ کرکے اسے واپس لے لیا۔
عدالت نے استفسار کیاکہ کابینہ کے فیصلے میں غلطی کیا ہے؟ کیا آپ نے کسی نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ نوٹیفکیشن نہیں ملا مگر یہ بہت حساس معاملہ ہے اقلیتوں کو حقوق ملنے چاہیں، عدالت احمدیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کے احکامات جاری کرے۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے کچھ ریکارڈ پیش نہیں کیا، جلد بازی میں درخواست دائر کرنے کیا ضرورت پیش آئی؟ کیا آپ متاثرہ فریق ہیں؟ اقلیتوں سے متعلق کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے؟ عدالت نے قانون دیکھنا ہے، معاملے کی حساسیت کو نہیں۔
طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہاکہ حکومتی فیصلے سے عالمی سطح پر تاثر بن رہا ہے کہ یہاں اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں۔
اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر کسی کو شک نہیں، کیا آپ ان کی نمائندگی کررہے ہیں؟ آپ بتائیں کہ کس قانون کے تحت ہر اقلیت کو کمیشن میں شامل کرنا ضروری ہے؟
جسٹس محسن اختر نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل قانونی نہیں، انتظامی معاملہ ہے، اقلیتوں کے حقوق تسلیم شدہ ہیں، اگر اقلیتی حقوق نہیں مل رہے تو انہیں خود عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا تھا کہ احمدیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے سے متعلق خبر بے بنیاد ہے۔
اس کے بعد 5 مئی کو وفاقی کابینہ نے قومی اقلیتی کمیشن کی منظوری دی تھی جس میں کوئی احمدی شامل نہیں۔