لاہور (ڈیلی اردو/وائس آف امریکا) لاہور میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جماعت الدعوۃ کے چار اہم رہنماؤں پر فردِ جرم عائد کی ہے۔ عبدالرحمان مکی، یحیٰی عزیز، عبدالاسلام اور ملک ظفر اقبال پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام ہے۔
ملزمان کے خلاف پنجاب کے محکمۂ انسداد دہشت گردی (کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ) نے غیر قانونی فنڈنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ جس پر انسدادِ دہشت گردی عدالت نمبر تین نے منگل کو مقدمہ نمبر 20/19 کی سماعت کرتے ہوئے چاروں ملزمان پر فردِ جرم عائد کی۔
سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو نے عدالت سے ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کی استدعا کی۔ سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرؤف وٹو نے بتایا کہ اِس کیس کی نوعیت جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کے مقدمے سے ملتی جلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عبد الرحمان مکی، یحیٰی عزیز، عبدالاسلام اور ملک ظفر اقبال کے خلاف مقدمہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے دفتر میں درج کیا گیا تھا جسے بعد ازاں لاہور منتقل کر دیا گیا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ انہیں اُمید ہے کہ اِس کیس کا فیصلہ ایک ہفتے میں ہو جائے گا۔
مقدمے کی تفصیل بتاتے ہوئے عبدالرؤف وٹو نے کہا کہ “اوکاڑہ میں ایک جائیداد ہے جس کے ایک حصے میں مدرسہ اور مسجد بنائی گئی تھی۔ یہ مدرسہ کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ اور کالعدم تنظیم الانفال ٹرسٹ کے زیرِ انتظام تھا۔ یہ جائیداد ٹیرر فنانسنگ سے حاصل کی گئی ہے اور مدرسہ بھی ٹیرر فناسنگ سے بنایا گیا تھا جس سے دہشت گردی پھیلنے کا خدشہ تھا۔ اس لیے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔”
واضح رہے کہ محکمۂ انسدادِ دہشت گردی نے جماعت الدعوۃ کے مذکورہ چاروں مرکزی رہنماؤں کو گزشتہ سال جولائی میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ سی ٹی ڈی نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور نائب امیر عبدالرحمان مکی سمیت 13 مختلف رہنماؤں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت منی لانڈرنگ کے دو درجن سے زائد مقدمات درج کیے تھے۔
یکم اور دو جولائی 2019 کو جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف سی ٹی ڈی نے لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد، ساہیوال اور سرگودھا سمیت دیگر شہروں کے مختلف تھانوں میں تقریباً 23 مقدمات درج کیے تھے۔
وائس آف امریکہ سے اِس سلسلے میں جماعت الدعوة کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
دوسری جانب اس مقدمے سے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوة کے چاروں ملزمان کی سزا کے بارے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ حکومت پر دباؤ بہت زیادہ ہے کیوں کہ عالمی برادری نے پاکستان کو کالعدم تنظیموں کے خلاف جو ثبوت فراہم کیے ہیں، انہیں پاکستان نے تسلیم کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید کہتے ہیں کہ پاکستان تاحال فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں ہے۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عمل کرنا ہو گا۔
احمد ولید نے کہا کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس اور مختلف مسائل کے باوجود پاکستان کو اِس بات کا ادراک ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر بھی عمل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “حکومت کی پالیسی تبدیل ہو چکی ہے۔ جب سے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر دباؤ بڑھایا ہے، پاکستان نے بہت سارے ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے ماضی میں وہ ہچکچاتا رہا ہے۔ اگر پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کے خطرات بڑھ گئے یا پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا تو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
احمد ولید کے مطابق پاکستان اپنے سالانہ بجٹ سے قبل دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ کالعدم تنظیموں سے متعلق تمام ضروری اقدامات مکمل کر لیے گئے ہیں جن میں مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیل اور ان میں رقوم کی منتقلی کی تفصیلات جمع کرنا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کو بتانا چاہتا ہے کہ وہ بجٹ میں بہت سی چیزوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاکہ ان کوششوں کے پیشِ نظر کوئی رعایت حاصل کی جا سکے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے جو حالات ہیں، وہ قدرے تبدیل ہوں۔ ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر پاکستان نے بہت سے ایسے کام کیے ہیں جن پر ماضی میں ہچکچاہٹ نظر آئی ہے۔”
یاد رہے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے قائم عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس رواں سال جون میں شیڈول تھا جو کرونا وائرس کے باعث اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔