16

خیرپور: شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے پروفیسر ساجد سومرو ‘توہین مذہب’ کے الزام میں گرفتار

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور میں پولیس نے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو توہین مذہب کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پروفیسر ساجد سومرو شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے سندھی شعبے میں بطور معلم فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ قوم پرستانہ اور صوفیانہ خیالات رکھتے ہیں جس کا اظہار وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے پوسٹس کے ذریعے گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔

پولیس اہلکار اے ایس آئی غلام نبی ناریجو کی مدعیت میں یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 295، 295 اے، 298 اور 153 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ معمول کے گشت پر تھے اور جب وہ فیض آباد کے قریب پہنچے تو انھیں مخبر کے ذریعے اطلاع ملی کہ ساجد سومرو ولد شہمیر سومرو مذہبی جذبات مجروح کرنے کی نیت سے بات کرتے ہیں اور انتشار پھیلاتے ہیں۔

درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ پروفیسر ساجد سومرو نے مدارس کے خلاف بھی بات کی۔

مدعی مقدمہ کے مطابق اطلاع ملنے کے بعد وہ عملے کے ساتھ فیض آباد پہنچے جہاں پہنچ کر یہ بھی معلوم ہوا وہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھی بات کرتے ہیں۔

ساجد سومرو نے گرفتاری سے قبل ایک فیس بک لائیو کیا تھا جس میں کہا کہ ’میں اس وقت اپنے گھر میں ہوں میں 19ویں گریڈ کا پروفیسر ہوں، میں نے صوفی ازم پر ایک پوسٹ لکھی تھی جس کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اب پولیس گھر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے میرے گھر میں بچے اور خواتین بھی موجود ہیں۔ یہ کیسا قانون ہے اور یہ کون سی ریاست ہے؟

فیس بک پر موجود ایک دوسری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ساجد سومرو کو پولیس اپنی حراست میں لے کر جا رہی ہے اور ساجد بتا رہے ہیں کہ پولیس دروازے توڑ کر گھر میں داخل ہوئی ہے۔ وہ صوفی ہیں۔۔۔ انھوں نے ایک مولوی کو جواب دیا تھا جس کے رد عمل میں یہ کیا جا رہا ہے۔

پروفیسر ساجد سومرو نے گذشتہ ہفتے سندھ کے ممتاز تاریخ نویس عطا محمد کی تدفین میں شرکت کی تھی۔ اپنے فیس بک پر انھوں نے لکھا تھا کہ عطا محمد بھنبھرو کی وصیت کے مطابق ’آج سائیں کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتار کر ان کا منھ زمین کی طرف کر کے دفنایا، ان کے ہونٹ دھرتی کو چومنے لگے، بعد میں ان کی قبر پر زنجیر بھی اپنے ہاتھوں سے لگائی۔‘

خیرپور کے سینیئر صحافی اور عطا محمد بھنبھرو کے رشتہ دار غلام عباس بھنبھرو کا کہنا ہے کہ ساجد سومرو کے خلاف مقدمے اور گرفتاری کا عطا محمد بھنبھرو کی تدفین سے کوئی تعلق نہیں اور انھیں سوشل میڈیا کی پوسٹس کے حوالے سے مولویوں کی شکایت پر گرفتار کیا گیا ہے۔

’عطا محمد کی وصیت سے خاندان اور اہلخانہ لاعلم ہیں۔ انھوں نے ان سے ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا، انھیں صرف یہ معلوم ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیٹے کے پہلو میں تدفین کی جائے۔‘

غلام عباس بھنبھرو کے مطابق نماز اور تدفین کے بعد لواحقین اور علاقے کے لوگ واپس آ گئے تھے اس کے بعد قبر پر یہ زنجیر لگائی گئی، اس وقت یہ زنجیر لگانے والوں کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔

یاد رہے کہ عطا محمد بھنبھرو نے سندھ کی تاریخ اور سماجیات پر متعدد کتابیں تحریر اور ترجمہ کیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف علی زرداری کی جانب سے انھیں صدارتی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن انھوں نے نظریاتی اختلاف رکھتے ہوئے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کیا۔

عطا محمد قوم پرست خیالات رکھتے تھے، ان کے بیٹے محمد زمان عرف راجہ داہر کی جبری گمشدگی کا واقعہ بھی پیش آیا اور اس کے بعد سپر ہائی وے کے قریب سے ان کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں