اسرائیل کا شامی علاقے گولان پر یہودی بستیاں بسانے کا اعلان

مقبوضہ بیت المقدس (ڈیلی اردو) اسرائیل نے اپنے صیہونی عزائم کی تکمیل کیلئے گولان کی پہاڑیوں پر یہودی بستیاں بسانے کا اعلان کردیا۔ اسرائیلی حکومت گولان ہائٹس پر تین سو یہودی خاندانوں کو آباد کرے گی۔

اسرائیل گولان ہائٹس پر یہودی بستیاں بسانےکےمنصوبےپر تیئس ملین ڈالر خرچ کرےگا۔ اسرائیل نے انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا تھا۔ اسرائیل نے اظہار تشکر کےطور پر یہودیوں کی آبادکاری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر رکھنے کی منظوری بھی دی تھی۔ اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا تھا۔

گولان کی پہاڑیاں کیا ہیں؟

گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ علاقے ہے جس پر اسرائیل نے 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔

گولان کی پہاڑیاں 1200 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہیں۔ یہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ اس علاقے پر تقریباً 30 یہودی بستیاں قائم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 20000 لوگ منتقل ہو چکے ہیں۔

اس علاقے میں تقریباً 20000 شامی لوگ بھی رہتے ہیں۔ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحدی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے ایک جانب لبنان اور دوسری جانب اردن کی سرحد بھی لگتی ہے۔

گولان کی پہاڑیوں پر تنازع کیا ہے؟

اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے آخری مرحلے میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور 1973 میں شام کی اس پر واپس قبضہ کرنے کی کوشش بھی ناکام بنائی اور سنہ 1981 میں اس کو اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اپنا علاقہ قرار دے دیا تھا۔

تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ گزشتہ 52 سال سے یہ علاقہ عالمی سطح پر متنازع ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔

شام میں اقوام متحدہ کے خصوصی سفیر گئیر پیڈرسن نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ سکیورٹی کونسل اس پر بہت واضح ہے کہ گولان کی پہاڑیاں شامی علاقہ ہے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق یہ شامی کی سرحدی سالمیت کا معاملہ ہے۔

گولان پہاڑیوں کی اہمیت

گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اسرائیل دونوں ملک ہی خاص اہمیت دیتے ہیں اس کی اہم وجہ اس کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت ہے۔ شام کے جنوب مغرب میں واقع اس پہاڑی سلسلے سے شامی دارالحکومت دمشق واضح طور پر نظر آتا ہے۔

اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کے بعد سے اسرائیلی فوج یہاں سے شامی فوج اور جنگجوؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہاں سے شمالی اسرائیل کا علاقہ بھی دسترس میں ہے اور سنہ 1948 سے سنہ 1967 تک جب یہ پہاڑی سلسلہ شام کے زیر انتظام تھا تو شامی فوج یہاں سے شمالی اسرائیل پر گولہ باری کرتی رہی ہے۔

لہذا اس علاقے کا جغرافیائی محل وقوع اسرائیل کو شام کی جانب سے کسی بھی عسکری حملے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔

عسکری اہمیت کے علاوہ اس بنجر علاقہ کے لیے پانی بھی ان پہاڑیوں سے بارش کے پانی سے بننے والے ذخیرہ سے حاصل ہوتا ہے جو کہ اسرائیل کے لیے پانی کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں