پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کی طرف سے مختلف الزامات کے تحت سزاؤں کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 196 افراد کی سزائیں کالعدم قرار دے دی ہیں۔ جبکہ مزید ایک سو سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔
منگل کو عدالت میں تقریباً 300 سے زیادہ ایسی درخواستوں پر سماعت ہوئی جنھیں فوجی عدالت سے سزائیں سنائی گئی تھیں۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل شبیر گگیانی ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالت نے ان درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا ہے جن کا ریکارڈ سرکار کی جانب سے پیش کیا گیا ہے جبکہ ان درخواستوں پر جن کا ریکارڈ اب تک پیش نہیں کیا جاسکا ان کی سماعت آئندہ دنوں میں ہوگی۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے گذشتہ سال بھی فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔
درخواست گزاروں کے وکیل وکیل شبیر گگیانی ایڈووکیٹ کے مطابق ان میں ایسے درخوست گزار ہیں جنھیں مختلف سزائیں سنائی گئی تھیں۔ ان افراد کو سزائے موت، عمر قید یا 14 سے 15 سال قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ان لوگوں کو سزائیں کن بنیادوں پر سنائی گئیں تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انھوں نے اقبال جرم کیا تھا۔
شبیر گگیانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت نے ان سے پوچھا کہ ریکارڈ کے مطابق ان افراد نے اقبال جرم آٹھ، آٹھ سال اور نو، دس سال کی تاخیر سے کیوں ریکارڈ کیے ہیں، تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ’برین واشنگ‘ کی گئی اور ان کے ’ذہنوں سے جنت کا خواب نکالنا تھا‘ اس لیے بیان ریکارڈ کرنے میں تاخیر ہوئی ہے۔
شبیر گگیانی ایڈووکیٹ منگل کو عدالت میں تقریباً ایک سو درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوئے۔
انھوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ میں یہ درخواستیں 2018 اور 2019 اور کچھ 2020 میں دائر ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے 196 مقدمات کا ریکارڈ پیش کیا گیا تھا جبکہ کل درخواستیں 306 تھیں۔
درخواست گزاروں کے وکیل کے مطابق عدالت میں جو ریکارڈ پیش کیا گیا اس کے تحت فوجی عدالتوں کے پاس ان لوگوں کے مقدمات کے اختیارات اور ان کے خلاف باقاعدہ شواہد موجود نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو نو سے دس سال حراست میں رکھا گیا تھا اور ان ملزمان کے خلاف صرف ان کا اقبال جرم تھا اور اقبال جرم کے بعد دوبارہ ان افراد کو فوج کے حکام کے حوالے کیا گیا تھا جو کہ آئین کے خلاف ہے۔
’فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا‘
شبیر گگیانی کے مطابق عدالت نے سماعت کے دوران کہا ہے کہ درخواست گزاروں کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا اور صرف قابل جرم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔
شبیر گگیانی نے بتایا کہ اس طرح کے مقدمات سے ملتی جلتی درخواستوں پر پہلے بھی پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ منگل کی سماعت کے دوران جو بات سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہ افراد آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت غیر قانونی حراست میں تھے اور ان افراد کے خلاف کوئی گواہ پیش نہیں ہوئے اور ناکافی شواہد کی بنیاد پر ان افراد کی رہائی کا حکم دیا گیا ہے۔
اس سے قبل 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے اس طرح کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا اور درخواست گزاروں کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی جس پر حکم امتناعی دیا گیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ نے اکتوبر 2018 میں اسی طرح کی 74 درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے تمام افراد کی اپیلین منظور کی تھیں اور انھیں فوجی عدالت سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دی تھیں۔ درخواست گزاروں کی رہائی کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔
شبیر گگیانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت کا حالیہ فیصلہ بھی اسی تناظر میں دیا گیا ہے اور اب رہائی کے احکامات جیل بھیج دیے جائیں گے اور اگر درخواست گزار کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہوئے تو ان کی رہائی عمل میں آ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا حکم امتناعی
یاد رہے کہ اکتوبر 2019 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے خیبر پختونخوا میں رائج مخصوص قوانین ایکشن ان ایڈ اینڈ سول پاور آرڈیننس 2019 اور حراستی مراکز کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے اس کے خلاف 13 نومبر 2019 تک حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔
فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 70 سے زیادہ افراد کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف تمام درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
اس کے بعد نومبر 2019 کی ایک سماعت کے دوران پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ فوج کے زیر انتظام چلنے والے حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کے خلاف مقدمات کے فیصلے اگر فوجی افسر کی گواہی پر ہی ہونے ہیں تو پھر بہتر ہے کہ عام عدالتوں میں ہزاروں افراد کے خلاف دائر مقدمات کو حراستی مراکز میں منتقل کر دیا جائے۔
انھوں نے یہ بات صوبہ خیبر پختونخوا میں فاٹا اور پاٹا سے متعلق جاری کیے گئے آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاق کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کے دوران کہی تھی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہیں وہ اس بات پر تو یقین نہیں رکھتے کہ ’محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔‘
مارچ 2020 میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کو فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے روکنے کے لیے وفاقی حکومت کی استدعا کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ عدالتِ عظمیٰ ہائی کورٹ کے معاملات میں کیسے مداخلت کر سکتی ہے۔
یہ اپیلیں صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیر انتظام حراستی مراکز میں موجود تقریباً 200 ملزمان نے دائر کر رکھی تھیں۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو شدت پسندی کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے ان 71 افراد کے جرائم اور ان سے کی جانے والی تفتیش سے متعلق ایک مفصل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا تفتیشی ادارے کے پاس ملزمان کے اقرار جرم کے علاوہ کوئی اور بھی ثبوت ہے۔ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزمان کے خلاف شواہد کے حوالے سے بھی آگاہ کریں۔
پاکستان میں فوجی عدالتیں کیوں قائم کی گئیں؟
پاکستان میں 16 دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کے بعد قانون سازی کے ذریعے فوجی عدالتوں کو اختیارات دیے گئے تھے۔ جس کے تحت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عام شہریوں کے خلاف مقدمات سننے اور سزائیں دینے کا اختیار بھی ان عدالتوں کو دیا گیا تھا۔
بعدازاں ان عدالتوں کے قیام کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی تھی۔ البتہ جنوری 2015 میں قائم کی گئی ان عدالتوں کی مدت جنوری 2019 میں ختم ہو گئی تھی۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض وکلا تنظیموں کی جانب سے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی گئی تھی۔ پاکستان میں گزشتہ سال سے ہی فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ البتہ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے مابین تاحال اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔