کابل (ڈیلی اردو) افغانستان میں پسند کی شادی جرم بن گئی۔ طالبان نے خاندان کے 53 افراد کو اغوا کر لیا۔ اغوا ہونے والوں میں ہزارہ برادری کے 28 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں نے پسند کی شادی کرنے والی خاتون کی تلاش میں 53 افراد کو اغوا کر لیا ہے۔
سرکاری حکام کے مطابق ان افراد کو وسطی افغان صوبے دایکندی میں سفر کے دوران اغوا کیا گیا۔
افغان دارالحکومت کابل سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق حکام نے آج ہفتہ 20 جون کے روز تصدیق کر دی کہ ان درجنوں افغان شہریوں کو طالبان دہشت گردوں نے بظاہر ایک ایسی عورت کی تلاش کے دوران انتقاماﹰ اغوا کیا، جو چند روز قبل اپنے گھر سے فرار ہو گئی تھی۔
The #Taliban have taken 53 civilians, including women and children, as hostages in #Kejran district of the central #Daikundi province, according to a local official.https://t.co/JuS5gh88dD
— KabulNow (@KabulNow) June 20, 2020
یہ خاتون صوبے اروزگان کی رہائشی بتائی گئی ہے، جو مبینہ طور پر اپنے خاندان کی رضامندی کے بغیر اپنے دوست کے ساتھ شادی کیلئے گھر سے فرار ہو کر ہمسایہ صوبے دایکندی چلی گئی تھی۔
طالبان عسکریت پسندوں کو شبہ تھا کہ دایکندی کے ضلع کجرآن کے مقامی باشندوں نے اس خاتون اور اس کے دوست کو اپنے ہاں پناہ دی تھی اور اسی لیے انہوں نے کجرآن کے 53 باشندوں کو اس وقت ان کی گاڑیوں سے اتار کر اغوا کر لیا، جب وہ مقامی طور پر سفر میں تھے۔ اغوا ہونے والوں میں ہزارہ برادری کے 28 خواتین اور بچے شامل ہیں۔
مقامهای محلی ولایت دایکندی در افغانستان میگویند که اعضای گروه طالبان چهار روز پیش نفر ۴۳ را ربودهاند که هفت نفر از آنها در این مدت با میانجیگری مردم محلی آزاد شدهاند.
نسرین نوا، خبرنگار بیبیسی در کابل از جزئیات گروگانگیری میگوید pic.twitter.com/XTwCILbAvU— BBC NEWS فارسی (@bbcpersian) June 20, 2020
اروزگان کے نائب صوبائی گورنر محمد علی اروزگانی کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں نے ان افراد کو اس لیے اغوا کیا کہ وہ کجرآن کی مقامی آبادی پر دباؤ ڈال سکیں کہ وہ طالبان کو بتائیں کہ اپنے گھر سے فرار ہونے والے خاتون کہاں ہے؟
طالبان عسکریت پسندوں کو آج بھی افغانستان کے کئی صوبوں میں خاصا اثر و رسوخ حاصل ہے
محمد علی اروزگانی کے بقول ان پچاس سے زائد افراد کو طالبان نے منگل سولہ جون کو اغوا کیا اور تمام مغوی اب تک عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہیں۔
دیگر ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق طالبان کو ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار جس جوڑے کی تلاش تھی، وہ مبینہ طور پر واپس اروزگان کے ضلع گیزاب لوٹ چکا ہے مگر طالبان اغوا کاروں نے ابھی تک مغویوں کو رہا نہیں کیا۔
افغانستان کے انتہائی قدامت پسند معاشرے میں مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ طالبان عسکریت پسند بھی اس بات کو سماجی طور پر اپنی عزت کے انتہائی منافی خیال کرتے ہیں کہ کوئی عورت اپنے گھر سے فرار ہو جائے۔ اس اقدام کو صدیوں سے انتہائی سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اور اس کی سزا کے طور پر خاتون کو بالعموم قتل یا سنگسار کر دیا جاتا ہے۔
دایکندی کی صوبائی کونسل کے سربراہ رستمیان کے مطابق اس صوبے میں طالبان ماضی میں بھی بڑے حملے تو کرتے رہے ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے کہ عسکریت پسندوں نے دایکندی میں اتنے زیادہ عام شہریوں اور مسافروں کو اغوا کیا ہے۔