بیجنگ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایک نئی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ چینی حکومت صوبہ سنکیانگ میں رہنے والے اویغور مسلمانوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے اس برادری کی خواتین کی نس بندی کرا رہی ہے یا انھیں مانع حمل آلات کے استعمال پر مجبور کر رہی ہے۔
چینی امور کے ایک ماہر ایڈریان جنز کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے اور انھوں نے اقوام متحدہ سے معاملے کی تحقیقات کرنے کی اپیل کی ہے جبکہ چین نے اس رپورٹ کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
اویغور مسلمانوں کو قید میں رکھنے کے لیے چین پہلے سے ہی تنقید کی زد میں ہے۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ تقریبا دس لاکھ اویغور مسلمان اور دوسرے لوگوں کو، جن میں زیادہ تر مسلمان اقلیت شامل ہیں، حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت اس کو ‘ری ایجوکیشن کیمپ’ کہتی ہے۔
اس سے قبل چین نے ایسے کسی بھی کیمپ کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔ لیکن بعد میں یہ کہہ کر اس کا دفاع کیا کہ یہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ضروری اقدام تھا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین سے ’ان ہولناک کارروائیوں کو فی الفور بند کرنے‘ کے لیے کہا ہے۔ ایک بیان میں انھوں نے زور دیا ہے کہ ’تمام ممالک کو امریکہ کے ساتھ مل کر اس غیر انسانی فعل کو بند کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘
The United States condemns the use of forced population controls against Uyghur and other minority women and calls on the CCP to cease its campaign of repression. History will judge how we act today.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) June 29, 2020
بیان کے علاوہ انھوں نے ٹویٹ بھی کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ اویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی خواتین پر جبراً آبادی کو کنٹرول کیے جانے کے طریقوں کی سخت تنقید کرتا ہے اور سی سی پی سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنا ظلم بند کرے۔ آج ہم جو کچھ کریں گے اسی کی بنیاد پر تاریخ ہمیں پرکھے گی۔‘
حالیہ چند برسوں میں اویغور مسلمانوں کے متعلق چین کا جو رویہ رہا ہے اس بارے بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوتی رہی ہے۔
بی بی سی نے سنہ 2019 میں اپنی تحقیقات میں پایا تھا کہ سنکیانگ میں بچوں کو منظم طریقے سے اپنے کنبے سے الگ کیا جارہا ہے۔ ایسا انھیں اپنی مسلم برادری سے الگ کرنے کی کوشش کے تحت کیا جارہا ہے۔
ایڈریان جینز کی رپورٹ سرکاری علاقائی اعداد و شمار، پالیسی سازی سے متعلق دستاویزات، اور سنکیانگ میں اقلیتی برادری کی خواتین کے ساتھ انٹرویو پر مبنی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادری کی خواتین کو اسقاط حمل کرنے سے انکار کرنے پر کیمپ میں نظربند رکھنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جن خواتین کے قانونی طور پر دو یا اس سے کم بچے تھے ان میں ان کی مرضی کے بغیر انٹرا یوٹیرائن آلات نصب کیے گئے۔ جبکہ دوسری خواتین کو نس بندی کرانے پر مجبور کیا گیا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سنہ 2016 کے آخری مہینوں میں سنکیانگ میں جو زیادتیاں شروع ہوئی ہیں اس نے سنکیانگ کو پولیس والی سخت حکومت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ولادت میں مداخلت حکومت کی جانب سے ایک عام عمل بن چکا ہے۔‘
ایڈریان جنز کے ایک تجزیہ کے مطابق حالیہ برسوں میں سنکیانگ کی آبادی میں ڈرامائی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سنہ 2015 سے 2018 کے درمیان اویغور کی کثیر آبادی والے دو علاقوں میں 84 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کمی 2019 میں بھی جاری رہی۔
جنز نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ ’اس قسم کی کمی غیر متوقع ہے۔ یہ ایک طرح کا ظلم ہے۔ یہ اویغور مسلمانوں پر قابو پانے کی ایک وسیع مہم کا حصہ ہے۔‘
سنکیانگ کے کیمپ میں زیر حراست رہنے والی خواتین نے بتایا کہ انھیں کیمپ میں ماہواری روکنے کے لیے انجیکشن لگائے گئے تھے۔ حمل کو کنٹرول کرنے والی دوا کے اثرات کے باعث ان میں غیر معمولی طور پر خون بہتا رہتا تھا۔
A Chinese state campaign to force IUDs, sterilizations, and abortions on minority women in Xinjiang has pushed birth rates down over 60% in heavily Muslim Uighur regions. Some experts call it a form of “demographic genocide. https://t.co/kYIyAvQSmn
— The Associated Press (@AP) June 29, 2020
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’بہت حد تک یہ ممکن ہے کہ سنکیانگ میں حکام تین اور اس سے زیادہ بچوں والی خواتین کی بڑے پیمانے پر اجتماعی نس بندی کر رہے ہیں۔’
چین سے متعلق بین الپارلیمانی اتحاد (آئی پی اے ایس) نے جاری کردہ ایک بیان میں سنکیانگ کی صورتحال پر بین الاقوامی، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہراساں کرنے کی دیگر اقسام کے علاوہ اب اجتماعی طور پر یرغمال بنا کر رکھنا، غیر قانونی طور پر حراست میں لینا، جارحانہ نگرانی، جبری مشقت اور اویغور ثقافتی مقامات کو توڑنے کے اب وافر شواہد موجود ہیں۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘دنیا ان مظالم کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتی۔ ہمارے ممالک پر کسی کی قومیت، ذات، نسل یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہونے سے بچانے کی ذمہ داری ہے۔’
ایسوسی ایٹ پریس کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں خواتین کو حمل کی حد عبور کرنے پر جرمانے اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق چین میں پیدا ہونے والی قازقستان کی گلنار امیرزخ کو تیسرے بچے کے بعد انٹرا یوٹیرائنن ڈیوائس لگانے کا حکم دیا گیا تھا۔ جنوری سنہ 2018 میں فوج کے لباس میں چار فوجیوں نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور دو سے زائد بچے ہونے پر ڈیڑھ لاکھ یوآن کا جرمانہ عائد کر دیا۔
گلنار کے شوہر سبزی فروش ہیں اور انھیں ایک حراستی مرکز میں یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ گلنار بمشکل گزر بسر کر رہی اس کے پاس ادا کرنے کے لیے اتنی رقم نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق انھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ جرمانہ ادا نہیں کرتی ہیں تو پھر انھیں ان کے شوہر کے ساتھ کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔ گلنار نے اے پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ‘خدا آپ کو اولاد سے نوازتا ہے۔ لوگوں کو اولاد پیدا کرنے سے روکنا غلط ہے۔ وہ ہمیں انسان کے طور پر ہیمشہ کے لیے مٹا دینا چاہتے ہیں۔‘
اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یہ الزامات ‘بے بنیاد’ ہیں اور یہ ‘غلط ارادے’ کو ظاہر کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان زاؤ لیجان نے میڈیا پر ‘سنکیانگ کے متعلق غلط معلومات دینے’ کا الزام عائد کیا ہے۔
چین میں کئی دہائیوں سے ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی رہی ہے۔ لیکن شہری اقلیتوں کو دو بچوں اور دیہی علاقوں میں تین بچے پیدا کرنے اجازت دی گئی ہے۔ سنہ2017 میں پالیسی میں تبدیلی کے ذریعے اس فرق کو ختم کر دیا گیا اور چینی شہریوں کو بھی اقلیتوں کے برابر بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
لیکن خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹ پریس کے مطابق اقلیتی طبقات کو جس طرح اسقاط حمل، نسبندی اور آئی یو ڈی جیسے اقدامات سے گزرنا پڑتا ہے اس طرح وہاں چینی شہریوں کو نہیں گزرنا ہوتا ہے۔
جنز کی رپورٹ میں سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کی آبادی کنٹرول مہم کو ‘نسل کشی مہم’ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ موجودہ شواہد اس کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ سنکیانگ میں چین کی پالیسی نسل کشی سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن میں درج نسل کشی کے معیار سے مماثلت رکھتی ہے۔