پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پشاور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جمعرات کو پشتون تحفظ موومنٹ کی حامی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے خلاف “ٹیرر فنانسنگ” کا درج مقدمہ ٹھوش شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر خارج کرتے ہوئے انھیں اس مقدمے سے بری کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ مقدمہ سال 2018 میں پشاور میں انسداد دہشت گردی کے تھانے میں دہشت گردی میں مالی معاونت کرنے کے الزام میں درج کیا گیا تھا۔
گلالئی اسماعیل کے وکیل شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ آج انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج اصغر علی شاہ نے مقدمہ خارج کرنے کا حکم دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ جمعرات کو عدالت نے سرکاری وکلاء سے کہا کہ اگر ان کے پاس اس مقدمے کے بارے میں کوئی شواہد ہیں تو وہ پیش کیے جائیں جس پر سرکاری وکلا کی جانب سے ایک ویڈیو کلپ لایا گیا جو گلالئی اسماعیل کی اسلام آباد میں ایک تقریر کے بارے میں تھا۔
شہاب خٹک نے بتایا کہ عدالت نے کہا کہ یہ آزادی اظہار کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن اس مقدمے کے بارے میں کوئی شواہد ہیں تو وہ پیش کیے جائیں لیکن اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے جس پر عدالت نے اپنے فیصلے میں مقدمہ خارج کرنے اور ملزمان گلالئی اسماعیل ان کے والد پروفیسر اسماعیل اور والدہ کو اس مقدمے سے بری کرنے کا حکم دیا ہے۔
شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس مقدمے میں گلالئی اسماعیل کے ساتھ ان کے والد اور والدہ کو بھی نامزد کیا گیا تھا حالانکہ وہ دونوں بزرگ ہیں اور بیمار بھی رہتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس سے پہلے ان کے والد اور والدہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر دی گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ اس مقدمے میں ان کے ساتھ فضل الہی ایڈووکیٹ اور دیگر شامل تھے اور اس مقدمے کے خلاف انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ بے بنیاد مقدمہ خارج کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں الزامات بہت تھے لیکن ثبوت کوئی نہیں تھا۔
گلالئی اسماعیل ان دنوں امریکہ میں ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ یہ ایک بے بنیاد مقدمہ تھا جس میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنی این جی او کے ذریعے دہشت گردی میں ملوث افراد کو رقم فراہم کرتی ہیں اور ’اس میں میرے والدین کو بھی نامزد کیا گیا اور آج عدالت نے سب الزامات غلط قرار دیتے ہوئے مقدمہ خارج کردیا ہے۔‘
Today the anti-terrorism court acquitted me and my parents in the bogus & malicious case of financial terrorism. The prosecutor could not submit a single piece of evidence in the past one year because there was none. Thank you everyone who stood in this hard time with my family.
— Gulalai Ismail ګلالۍاسماعیل (@Gulalai_Ismail) July 2, 2020
انھوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کے لیے بات کرنے والے افراد کو ایسے بے بنیاد مقدمات میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج عدالت نے ثابت کردیا ہے کہ یہاں ہر طرف اندھیرا نہیں ہے، روشنی اب بھی موجود ہے اور اس روشنی کی بنیاد پر پی ٹی ایم کے دیگر افراد کے خلاف بھی بے بنیاد مقدمات خارج کر دیے جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے سے پہلے امید کھو چکی تھیں لیکن اب ان کی امیدیں پھر زندہ ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے افراد کو بعض اداروں کی جانب سے خوفزدہ کیا جاتا ہے اور ایسے بے بنیاد مقدمات درج کر دیے جاتے ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان میں اس بارے میں آواز اٹھائی جائے تاکہ آئندہ کسی کے خلاف اس طرح کے بے بنیاد مقدمات درج نہ کیے جا سکیں۔‘
گلالئی اسماعیل کے خلاف مقدمہ کیا تھا
پشاور میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ جولائی سال 2018 میں درج کیا گیا تھا اور اس میں کہا گیا تھا کہ اس بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے اسلام آْباد کی جانب سے مراسلہ موصول ہوا تھا۔
اگرچہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کے قانون کی دفعہ درج ہے لیکن وکلاء کے مطابق بعد میں اس میں دیگر دفعات بھی شامل کر دی گئی تھیں۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ ٹیرر فنانسگ یا دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے رقم فراہم کرنے کا تھا۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ گلالئی اسماعیل کی این جی اوز ’اویئر گرلز‘ اور ’سٹینڈ فار پیس‘ کی آڑ میں ملک دشمن عناصر اور دیگر تنظیوں کے لیے کام کرتی ہیں اور ان کے بینک اکاونٹس سے رقم بیرونی ممالک سے آتی ہے اور وہ فلاحی کاموں کی بجائے ملک دشمن عناصر اور دیگر تنظیوں کو فراہم کردی جاتی ہیں۔
شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دو سال سے جاری اس مقدمے میں عدالت نے بار بار سرکاری وکلاء سے کہا کہ اس بارے میں وہ شواہد پیش کریں لیکن کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے جا سکے۔
ان کے مطابق اس مقدمے کی گزشتہ سماعت کے دوران عدالت آخری مہلت دی تھی کہ اگر شواہد ہیں تو پیش کر دیے جائیں وگرنہ اگلی سماعت پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ جمعرات کو ایک مرتبہ پھر سرکاری وکلا کو ثبوت فراہم کرنے کا کہا گیا لیکن ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کی بنیاد پر عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا ہے۔
شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ گلالئی اسماعیل کے خلاف اس کے علاوہ بھی مقدمہ درج ہے لیکن اب تک اس مقدمے کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
گلالئی اسماعیل گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں کئی ماہ کی روپوشی کے بعد اچانک امریکہ میں منظرِ عام پر آئی تھیں۔
گلالئی اسماعیل مئی میں اس وقت غائب ہوئی تھیں جب اسلام آباد میں ایک بچی سے جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے واقعے پر احتجاج کرنے پر ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس مقدمے میں گلالئی اسماعیل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُنھوں نے ‘اس واقعے کی آڑ میں لوگوں کو حکومت وقت اور فوج کے خلاف بھڑکایا ہے’۔