لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے ایک نواحی گاؤں کی رہائشی احمدیہ برادری کے افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ مقامی افراد نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر ان کے پیاروں کی قبروں کی بے حرمتی کی ہے۔
جماعتِ احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے ٹوئٹر پر چند تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں مختلف قبروں کے کتبے ٹوٹے ہوئے ہیں۔
How long the state apparatus will act as enabler in the hands of extremists?
How long our dead will be persecuted in their graves?
How long the state & others will turn a blind eye to this? https://t.co/BhoAUSIUH0 pic.twitter.com/NzwZryzWLS— Saleem ud Din (@SaleemudDinAA) July 1, 2020
اپنی ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’پاکستان میں بسنے والی احمدی برادری کے افراد مرنے کے بعد بھی سکون میں نہیں ہیں۔ ضلع شیخوپورہ کے علاقے نواں کوٹ کے ایک گاؤں چک 79 میں احمدیوں کی قبروں کو مقامی مذہبی افراد اور حکام کی طرف سے نقصان پہنچانے کا واقعہ قابلِ مذمت ہے۔‘
The Ahmadis residing in Pakistan are not at peace even after their demise. The act of damaging the Gravestones of the Ahmadis in Chak No-79 Nawa Kot, District Sheikhupura by the Local Clerics and the Authorities is indeed condemnable. pic.twitter.com/o0AR08tbWW
— PressSectionSAA (@PressSectionSAA) July 1, 2020
ٹویٹ میں ان کا مزید کہنا تھا ’پہلے احمدی برادری کے افراد کو قبروں کے کتبوں کو توڑنے کا کہا گیا تھا اور ان کے انکار پر انتظامیہ نے مقامی مذہبی افراد کی مدد سے خود یہ کام کر دیا۔‘
On one side while the state is trying to give the impression that Pakistan supports Religious Harmony and Tolerance and on the other hand is following the desires of the extremists to carry out activities against a marginalized Community. pic.twitter.com/3InIJRrR5e
— PressSectionSAA (@PressSectionSAA) July 1, 2020
جماعتِ احمدیہ کے ایک ترجمان عامر محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابتدا میں مقامی آبادی اور احمدیہ برادری کے افراد کے درمیان جنازہ گاہ کی تعمیر کے منصوبے پر تنازعہ ہوا تھا جس پر مقامی افراد نے پولیس کو درخواست دی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا احمدیہ برادری کے افراد قبرستان میں علیحدہ جنازہ گاہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، ان کو ایسا کرنے سے روکا جائے۔ اس پر دونوں اطراف کے نمائندوں کو مقامی تھانے میں بلایا گیا اور احمدی برادری کے افراد کو کہا گیا کہ وہ جنازہ گاہ تعمیر نہ کریں۔
’احمدی برادری کے افراد اس بات پر راضی ہو گئے تاہم ساتھ ہی ان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ اپنے پیاروں کی قبروں سے کتبے بھی ہٹا دیں۔ پولیس کو دی جانے والی درخواست میں اس مطالبے کا ذکر نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مقامی مذہبی افراد کو اعتراض تھا کہ احمدی برادری کے افراد کی قبروں کے کتبوں پر قرآنی آیات درج کی ہیں جبکہ اقلیت ہونے کے ناطے وہ ایسا کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے اس لیے انھوں نے مطالبہ کیا کہ کتبوں کو ہٹایا جائے۔‘
عامر محمود کا کہنا تھا احمدی برادری کے افراد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس کے بعد ’مقامی مذہبی افراد نے پولیس کی مدد سے کتبوں کی بے حرمتی کی۔‘
تاہم مقامی صفدر آباد تھانے کے مہتمم صداقت رندھاوا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘قبروں کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ میں نے خود قبرستان میں جا کر دیکھا ہے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔‘
ٹوئٹر پر شائع ہونے والی تصاویر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں معلوم کہ وہ تصاویر کہاں کی ہیں۔ تاہم ان کے علاقے کے قبرستان میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مقامی افراد نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شیخوپورہ کو ایک درخواست دی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ گاؤں میں رہنے والے احمدی برادری کے افراد مقامی قبرستان میں علیحدہ جنازہ گاہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
درخواست میں بتایا گیا کہ ‘اس مقصد کے لیے مطلوبہ سامان یعنی اینٹیں اور ریت وغیرہ وہاں پہنچائے گئے تھے۔‘
مقامی افراد کی طرف سے دی جانے والی درخواست میں لکھا گیا تھا کہ ‘احمدی برادری کے افراد اقلیت ہونے کے باوجود خود کو مسلمان اور امتِ محمدیہ کا حصہ ظاہر کرتے ہوئے سرکاری اراضی پر قبضہ کر کے جنازہ گاہ تعمیر کرنا چاہتے تھے جو کہ آئین اور قانون کے خلاف تھا۔‘
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ‘ان کے اس اقدام سے مقامی آبادی میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور انتشار کا اندیشہ ہے اس لیے امن و امان قائم رکھنے کے لیے احمدیہ برادری کے افراد کو ایسا غیر قانونی اقدام کرنے سے روکا جائے۔’
ایس ایچ او صداقت رندھاوا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس درخواست کے بعد دونوں اطراف کے لوگوں کو تھانے میں بلایا گیا تھا اور بات چیت کے بعد احمدی برادری کے افراد اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ وہ جنازہ گاہ کی تعمیر کا ارادہ ترک کر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ گاؤں میں احمدی برادری کے 35 سے 40 افراد رہائش پذیر تھے۔ تھانے میں بات چیت کے بعد معاملہ ختم ہو گیا تھا اور قبروں کی بے حرمتی کا واقع نہیں ہوا۔