استنبول (ڈیلی اردو) ترکی کی عدالت نے عجائب گھر آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد بنانے کی منظوری دیدی۔
تفصیلات کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے تجویز دی تھی کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کا مسجد کا درجہ بحال کیا جائے۔
From church to mosque to museum to now once more a place of prayer.
Here is a brief history of the 1,483-year-old engineering marvel #HagiaSophia. pic.twitter.com/xQAYljk8kl
— TRT World (@trtworld) July 10, 2020
ترکی کی سب سے اعلیٰ انتظامی عدالت، کونسل آف سٹیٹ نے جمعے کو اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تصفیے کی دستاویز میں اسے مسجد کے لیے مختص کیا گیا لہذا قانونی طور پر اسے کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے 1934 کا کابینہ کا فیصلہ جس میں اس عمارت کے مسجد کے کردار کو ختم کر کے میوزیم میں تبدیل کیا گیا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔‘
عدالتی فیصلے کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے استنبول کی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔
جولائی کے شروع میں ترکی میں کاؤنسل آف سٹیٹ نے استنبول میں موجود آیا صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کرنے سے متعلق فیصلہ مؤخر کیا تھا جو جمعے کو سنایا گیا جس کی وجہ سے اس صدارتی فیصلے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
آیا صوفیہ کے عبادت کے لیے کھُلنے سے اس عالمی ورثے کی شناخت میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ اس کے زائرین میں اضافہ ہوگا۔ ابراہیم قالن، صدارتی ترجمان pic.twitter.com/sfSa7zqmD0
— ترکیہ اردو (@TurkiyeUrdu_) July 9, 2020
ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کالن نے کہا کہ آیا صوفیہ کو عبادت کے لیے کھولنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ مقامی یا غیر ملکی سیاحوں کے لیے بند ہو جائے گی۔
اس عمارت کو اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ یونیسکو نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ اس کی حیثیت تبدیل نہ کرے۔
Official statement on Hagia Sophia, Istanbul.
Hagia Sophia, part of the property “Historic Areas of Istanbul,” is inscribed on the #WorldHeritage List as a museum.
The inscription entails a number of legal commitments and obligations.
More: https://t.co/337lhrFZUw pic.twitter.com/vfxCsQQGRT
— UNESCO ????️ #Education #Sciences #Culture ???????? (@UNESCO) July 10, 2020
یہ بات نہایت اہم ہے کہ یہ عمارت چھٹی صدی عیسوی میں ایک چرچ کے طور تعمیر کی گئی تھی تاہم پندرہویں صدی میں قسطنطنیہ پر سلطنتِ عثمانیہ کے قبضے کے بعد اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے اور جدید ترکی کے قیام کے بعد مصطفیٰ اتاترک نے اسے میوزیم کا درجہ دیا تھا۔ اس کی وجہ ترکی کا سیکولر تصور قائم کرنا تھا۔
یاد رہے کہ آیا صوفیہ جو کہ 16ویں صدی کا عالمی ثقافتی ورثہ ہے مسیحیوں کی بازنطینی اور مسلمانوں کی سلطنتِ عثمانی دونوں کے لیے اہم تھا اور اب ترکی کی وہ یادگار ہے جہاں بڑی تعداد میں سیاح اور مقامی افراد جاتے ہیں۔ ایا صوفیہ کی موجودہ عمارت ڈیڑھ ہزار سال قبل 538 عیسوی میں تعمیر ہوئی تھی۔
تاہم ترکی کی اعلیٰ عدالت کا فیصلہ امریکی، روسی یونانی افسران اور مسیحی رہنماؤں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
واضح رہے کہ آیا صوفیہ کو 1934 میں عجائب گھر بنا دیا گیا تھا اور ابھی مسئلہ اس فیصلے کی قانونی حیثیت پر ہے۔ یہ فیصلہ مصطفیٰ کمال اتاترک کے دور میں ترک سیکولر ریاست کی بنیاد کے ایک دہائی بعد کیا گیا تھا۔
حکومت حامی کالم نگار عبدالقادر سیلوی نے حریت اخبار میں لکھا ہے کہ قوم 86 سالوں سے اسی فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔ عدالت نے آیا صوفیہ پر سے پابندیوں کی زنجیر ہٹا دی ہے۔ یہ کیس سامنے لانے والی ایسوسی ایشن کے مطابق آیا صوفیہ سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد دوم کی پراپرٹی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق استنبول کی تاریخی عمارت آیا صوفیہ بڑی طاقتوں، تہذیبوں اور مذاہب کے تصادم داستان سناتی ہے۔ اس میں موجود عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم کی پچی کاری کے ساتھ ساتھ ’اللہ‘ اور ’محمد‘ کی خطاطی بھی موجود ہے۔
اس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان نے آیا صوفیہ سے متعلق کہا تھا کہ اس بارے میں بیان بازی ترکی کی سالمیت کے خلاف حملہ ہے۔
صدر نے استنبول کے علاقے لیونت میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جس طرح دیگر ممالک میں کھولے جانے والی عبادت گاہوں کی تعظیم کو مقدم سمجھتے ہیں اسی طرح چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ہماری عبادت گاہوں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے، کیونکہ اس قسم کی بیان بازیاں ہماری بقا و سالمیت کے خلاف حملہ تصور کی جائیں گی۔
اردوان نے کہا کہ ترکی میں مسلم اکثریت آباد ہے جن کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ طور پر عبادت گزاری اور تہواروں کو منانے کا حق رکھتے ہیں جن کا تحفظ ہماری ذمے داری ہے۔ دنیا میں کروڑوں افراد مذہبی عقائد کی وجہ سے قتل یا اذیتوں اور مصائب کا شکار ہوتے ہیں جن کی باز پرس کرنا اور انہیں روکنا زیادہ ضروری ہے۔