برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پچھلے سال ہیلووین کی رات ایک چودہ سالہ جرمن بچی کو افغانستان، ایران و عراق سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں نے مبینہ طور پر نشہ آور ادویات دے کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنايا۔ اب ان کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔
جرمن شہر الُم کی ايک عدالت میں پانچ افراد کے خلاف مقدمے کی کارروائی جمعرات نو جولائی سے شروع ہوئی۔ ابتدائی سماعت مختصر رہی اور ملزمان نے کوئی بیان نہیں دیا۔ پانچوں ملزمان کی عمریں 15 سے 27 سال کے درمیان ہیں۔ ان پر ایک چودہ سالہ بچی کو نشہ آور ادویات دینے اور پھر اس کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کرنے کے الزمات ہیں۔
یہ واقعہ الم میں اکتيس اکتوبر سن 2019 کی رات پیش آيا تھا۔ کیس میں بیان کردہ حقائق کے مطابق ملزمان کی مذکورہ نابالغ بچی سے ملاقات الم شہر کے مرکز ميں ہیلووین کے تہوار کے موقع پر ہوئی تھی۔ انہوں نے مبینہ طور پر بچی پر زور دیا کہ وہ ان کے ساتھ قریبی واقع مقام الرکرشن برگ چلے، جہاں ان کا مہاجر کیمپ قائم تھا۔ وہاں لے جا کر انہوں نے اسے نشہ آور ادویات دیں۔ بعد ازاں چار ملزمان نے اس بچی کے ساتھ نو مرتبہ جنسی زیادتی کی۔
بچی نے بعد ازاں اپنے والدین کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ پانچ میں سے ایک ملزم اپنے جرم کا اعتراف کر چکا ہے۔ بقيہ ملزمان اپنے خلاف ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ عدالت کی آئندہ سماعت 20 جولائی کو متوقع ہے۔ عدالت نے اس کیس کے ليے تيرہ سماعتوں کا کہہ رکھا ہے اور نومبر تک حتمی فیصلہ سامنے آئے گا۔
بتایا گیا ہے کہ پانچوں ملزمان پناہ گزین ہیں اور ان کا تعلق افغانستان، ایران اور عراق سے ہے۔
جرمنی میں اس سے قبل بھی پناہ کے متلاشی افراد کے ہاتھوں مقامی لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، جس سے مجموعمی طور پر پناہ گزین اور مہاجرین معاشرے کے چند طبقوں کی جانب سے کافی تنقيد کی زد میں رہے۔