نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارتی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیشن کے ایک تازہ رپورٹ میں یہ انکشاف کيا گيا ہے کہ بھارتی دارالحکومت میں ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کے مکانات، دکانوں اور مذہبی مقامات کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا جبکہ انتظامیہ اور پولیس خاموش تماشائی بنے رہے۔
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بھارتی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ ایک تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ رواں سال کے اوائل میں نئی دہلی میں ہونے والوں ہنگاموں میں پولیس مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
نئی دہلی حکومت کی جانب سے منظور کردہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) خطے کے ممالک سے تعلق رکھنے والے چھ مذہبی گروپوں کو شہریت فراہم کرنے کے بارے ميں ہے۔ ان مذہبی گروپوں میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ‘مسلمانوں‘ کے حوالے سے امتیازی ہے اور ملک کی سیکولر ساکھ کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ اس قانون کی مخالفت میں پچھلے سال اور اس سال بھارت میں وسیع تر مظاہرے ہوئے۔ نئی دہلی میں کئی دہائیوں کے بد ترین مذہبی فسادات میں 53 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوگئے تھے، جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
‘دہلی مائنارٹیز کمیشن‘ (DMC) کے مطابق فروری میں ہونے والے ان فسادات میں مسلمانوں کے مکانات، دکانوں اور دیگر اثاثہ جات کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ گیارہ مساجد، پانچ مدرسوں اور ایک اور عبادت گاہ اور ایک قبرستان کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس بارے ميں ڈی ایم سی کی رپورٹ اسی ہفتے جاری کی گئی۔ رپورٹ میں لکھا ہے، ”انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے بظاہر احتجاج کو ختم کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر تشدد کا منصوبہ بنایا گیا۔‘‘ کمیشن نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ پولیس نے کئی واقعات میں مسلمانوں پر فرد جرم عائد کی حالاں کہ وہ سب سے زيادہ متاثرہ تھے۔
نئی دہلی پولیس کے ترجمان انيل متل نے کميشن کی رپورٹ میں شامل ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ پولیس نے منصفانہ انداز سے کام کیا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ناقدین کا ماننا ہے کہ ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی ‘ہندو پہلے‘ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور شہریت ترمیمی قانون ملک کے 170 ملین مسلمانوں کو مزید کنارے لگانے کی ہی ایک کوشش ہے۔ بی جے پی ان الزمات کو مسترد کرتی ہے۔
‘دہلی مائنارٹیز کمیشن‘ (DMC) نے اپنی رپورٹ میں 23 فروری کے فسادات میں بی جے پی کے چند سینئر ارکان پر بھی تشدد بھڑکانے کے الزامات لگائے۔