اسلام آباد (ڈیلی اردو) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 196 افراد کی ضمانتوں پر رہائی کا حکم معطل کردیا۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فریقین کو آئندہ جمعہ کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے ان 196 افراد کے خلاف مقدمات کی تفصیلات طلب بھی طلب کرلیں۔
پشاور ہائیکورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 200 افراد کو رہا کرنے کا حکم دے دیا
دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے ٹرائل کے بعد سزا ہوئی، ہر کیس کے اپنے شواہد اور حقائق ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 200 افراد کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور نے کیس پر فیصلہ سنایا تھا جب کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اعترافی بیانات پر ملزمان کو سزاہوئی اور انہیں شفاف ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔
خیال رہے کہ پشاور ہائی کورٹ سے بری ہونے والے ان 200 افراد کو دہشت گردی کے الزامات پر ملٹری کورٹس نے سزائیں سنائی تھیں جس پر ان افراد کی جانب سے سزاؤں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے معافی کی درخواست کی گئی تھی۔
پاکستان میں 16 دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کے بعد قانون سازی کے ذریعے فوجی عدالتوں کو اختیارات دیے گئے تھے۔ جس کے تحت دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عام شہریوں کے خلاف مقدمات سننے اور سزائیں دینے کا اختیار بھی ان عدالتوں کو دیا گیا تھا۔
بعدازاں ان عدالتوں کے قیام کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کر دی گئی تھی۔ البتہ جنوری 2015 میں قائم کی گئی ان عدالتوں کی مدت جنوری 2019 میں ختم ہو گئی تھی۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے دہشت گرد حملے کی ذمہ داری کالعدم ‘تحریک طالبان پاکستان’ اور بعد ازاں اس سے علیحدہ ہونے والی تنظیم ‘جماعت الاحرار’ کے ترجمان قاری احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی۔
احسان اللہ احسان فوج کی تحویل میں تھے اور فوج کے حکام کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان کے سابق ترجمان نے خود کو فوج کے حوالے کیا تھا۔ بعدازاں احسان اللہ احسان فوج کی حراست سے فرار ہو گئے تھے۔