اسلام آباد (ڈیلی اردو) ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے لئے حکومت کی جانب سے وکیل مقرر کرنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے لیے حکومت کی جانب سے وکیل مقرر کرنے کی درخواست پر سماعت کے لیےخصوصی بینچ تشکیل دیدیا ہے جس میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہیں جب کہ کیس کی سماعت 3 اگست کو ہوگی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو نے سزا کے خلاف درخواست دائر کرنے سے انکار کیا، کلبھوشن جادھو بھارت کی معاونت کے بغیر پاکستان میں وکیل مقرر نہیں کر سکتا جب کہ بھارت بھی آرڈیننس کے تحت سہولت حاصل کرنے سے گریزاں ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرے، عدالت حکم دے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو۔
کلبھوشن جادھو کی سزا اور انڈیا کی اپیل
پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں کلبھوشن جادھو کو جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی۔
اس فیصلے کے خلاف انڈیا نے مئی 2017 میں عالمی عدالت انصاف کا دورازہ کھٹکھٹایا تھا اور استدعا کی تھی کہ کلبھوشن کی سزا معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
عالمی عدالت نے انڈیا کی یہ اپیل مسترد کر دی تھی تاہم پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو قونصلر تک رسائی دے اور ان کی سزایے موت پر نظرِ ثانی کرے۔
کلبھوشن جادھو کے بارے میں پاکستان کا دعوی ہے کہ وہ انڈین بحریہ کے حاضر سروس آفسر ہیں جنھیں سنہ 2016 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان ایک عرصے سے بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی پشت پناہی کرنے کا الزام انڈیا پر عائد کرتا رہا ہے
کلبھوشن جادھو کا پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف
24مارچ کو پاکستان کی فوج نے کلبھوشن جادھو کی گرفتاری کا اعلان کیا اور کہا کہ ’’بھارتی جاسوس کو پاک ایران سرحد کے قریب سراوان کے علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔
29 مارچ 2016 کو اسلام آباد میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور وفاقی وزیر پرویز رشید نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کلبھوشن جادھو کی اعترافی ویڈیو جاری کی۔
اس ویڈیو میں کلبھوشن نے اپنی سروس اور بھارتی ہونے کے حوالے سے تصدیق کی اور اس کے ساتھ کہا کہ ’’بطور ’را‘ آفیسر بلوچستان اور کراچی میں کارروائیاں کرنے سمیت کراچی میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب بھی کرواتا رہا ہوں‘‘۔ کلبھوشن کا کہنا تھا کہ وہ را کے جوائنٹ سیکریٹری انیل کمار گپتا کے ماتحت ہیں اور انیل کمار گپتا کے ’’پاکستان میں موجود رابطوں، بالخصوص بلوچ اسٹوڈنٹ تحریک کو ہینڈل کرنا میرا کام تھا‘‘۔
کلبھوشن نے کہا کہ ’’میرا مقصد بلوچ باغیوں کے ساتھ مسلسل میٹنگ کرنا تھا اور انہی کے اشتراک سے میں کارروائیاں کرتا تھا۔ ان کارروائیوں کا مقصد پاکستان کے شہریوں کو نقصان پہنچانا اور انہیں ہلاک کرنا تھا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بلوچ باغیوں کو بہت سارے طریقوں سے فنڈنگ کی جاتی تھی۔دہشت گردی کی ان سرگرمیوں کا زیادہ تر دائرہ کار میری دی گئی معلومات پر مبنی ہو تا تھا جو کہ گوادر، پسنی اور پورٹ کے گرد دیگر تنصیبات پر مشتمل ہوتا تھا‘‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’’ان ساری کارروائیوں کا مقصد بلوچ لبریشن میں مجرمانہ سرگرمیوں کی ذہنیت کو مضبوط کرنا ہوتا تھا‘‘ تاکہ بقول ان کے ’’پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جا سکے‘‘۔ کلبھوشن نے بتایا کہ ’’میرے ’را‘ کے افسران کی جانب سے دیے گئے مختلف ٹارگٹس کے لیے میں ایران کے ساراوان بارڈر سے پاکستان کی سرحد عبور کرتا تھا۔ جب 3 مارچ 2016 کو پاکستانی حکام کے ہاتھوں پاکستانی علاقہ میں گرفتار ہو گیا‘‘۔ اور یہ کہ یہاں پاکستان میں وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے تھے اور گرفتار کر لیے گئے۔
کلبھوشن نے کہا کہ ’’جیسے ہی مجھے پتا چلا کہ میرے انٹیلی جنس آپریشنز ناکام ہو چکے ہیں اور میں پاکستان کی حراست میں آ چکا ہوں تو میں نے اپنی شناخت ظاہر کر دی۔ میرے یہ بتاتے ہی کہ میں بھارتی خفیہ سروس کا افسر ہوں، پاکستانی حکام کا رویہ بدل گیا۔ جس کے بعد انہوں نے مجھے بہت اچھے طریقے سے ڈیل کیا اور ایک اچھے اور پیشہ ورانہ انداز میں مجھ سے سلوک کیا۔ مجھے ایسے ہی ہینڈل کیا گیا جیسے کسی افسر کو کیا جاتا ہے‘‘۔
26 مارچ کو حکومت پاکستان نے بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھارتی جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔