نیو یارک (ویب ڈیسک) برہان وہانی کی شہادت نے کشمیر کی تحریک آزادی کوایک نئی طاقت بخشی ہے۔کشمیر کی آزادی کی جدوجہد مقامی طور پرکشمیریوں کے جسم میں سرائیت کرگئی ہے۔
اقوامتحدہ کی 4 جون 2018 ء کی رپورٹ اقوام متحدہ کی تاریخ میں ایک تاریخی لمحہ ہے جس نے ہندوستان کی ظالمانہ کاروائیوں کو ظاہر کیا اور پہلی دفعہ دنیاکے سامنے رکھاگیا۔
اس رپورٹ کے مطابق 145 شہریوں کوہندوستانی سکیورٹی فورسز نے شہیدکیااور20 شہریوں کوہندوسانی فورس نے شہیدکیا۔کشمیر میں۔8 جولائی 2016ء اور 27 فروری 2017ء کے درمیان6221 شہریوں کوپیلٹ گن کے ذریعے زخمی کیاگیاجن میں سے 728 کی آنکھیں زخمی ہوئیں۔
کشمیر کے وزیراعلٰی کے مطابق 54 لوگوں کی پیلٹ گنزکی وجہ سے آنکھیں متاثرہوئیں ۔سول سوئٹی کے مطابق وہ لوگ جوپیلٹ گنز کی وجہ سے جزوی طوریامکمل طور پراندھے ہوئے کی تعدادبہت زیادہ ہے۔
معلومات کے حق سوالنامے کے مطابق جموں وکشمیرکی مسلح پولیس کے 16 لوگ بھی پیلٹ گنز کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ اسی طرح ان کشمیری پنڈتوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے جن کومسلح گروہوں نے قتل کیااس مسلح بغاوت کے بعد جو1980ءکی دہائی کے آخرمیں شروع ہوئی ۔
کشمیری پنڈت سنگھارش سمیتی کے مطابق جو ان پنڈتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جوکشمیرمیں رہتے ہیں ،تقریبا 650 کشمیری پنڈتوں کو مسلح گروہ قتل کر چکے ہیں۔دوسرے پنڈتوں خاص طورپروہ جوکشمیرسے باہررہتے ہیں زیادہ تعداد کاذکرکرتے ہیں ۔
جموں و کشمیر پولیس کی رپورٹ کے مطابق1989 ءسے اب تک 209 پنڈتوںکوقتل کیاجاچکاہے ۔دسمبر2017 ءمیں وزیرداخلہ نے پارلیمنٹ کوبتایاکہ حکومتی اعداوشمار کے مطابق174 کشمیری پنڈتوں کو مسلح گروہوں نے قتل کیاہے۔انہوں نے مزید بتایاکہ ریاستی پولیس نے 30 کیسوں میں فردجرم عائد کیاہے جبکہ 142 کیسوں کاسراغ نہیں مل سکا۔
2017 ءایک کشمیری پنڈت گروپ جس کانام کشمیرکی روٹس ہے نے سپریم کورٹ آف انڈیامیں کیس دائرکیاجس میں کشمیر میں پنڈتوں کے قتل اور ان کی ہجرت کے بارے میں تحقیقات کامطالبہ کیااور 215 کیسوں کودوبارہ کھولنے کامطالبہ کیاجن میں 700 سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کو 1989-1990 میں قتل کیاگیا۔
سپریم کورٹ نے ان بنیادوں پرپٹشن کوردکردیاکہ 27 سال سے زیادہ گزچکے ہیں اور کوئی قابل ذکرنتیجہ سامنے نہیں آئے گاکیونکہ اس موڑپرکسی بھی ثبوت کاملناغیریقینی ہے ۔ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے انسانی ڈھالوں کواستعمال کرنے نے ہندوستانی فوج کے غٰیراخلاقی رویے کوظاہرکردیاجوکہ تمام قاعدوں کے خلاف ہے۔
آٹھ سالہ کشمیری لڑکی آصفہ بانو کے ساتھ زیادتی جوکہ ہندوستانی قبضہ شدہ جموں وکشمیرکے راسانہ گاوں میں رہتی تھی اور کشمیر کی آبادیاتی تناسب کوزبردستی تبدیل کرنے کومشکوک نظروں سے دیکھاجاتاہے۔
2018 ءبدترین سال تھاجس میں355 واقعات کورپورٹ کیاگیاجس میں 55 شہیداور300 زخمی شامل ہیں ۔معصوم بچوں اور خاص طور پرجوان لڑکیوں کے خلاف پیلٹ گن کواستعمال کیاگیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ہندوستانی ظالمانہ کاروئیوں کی تحقیقات کامطالبہ کیاحتٰی کہ فاروق عبداللہ نے ہندوستانی الزامات کو رد کردیااور کہاہندوستان کواپنے اندرکی طرف دیکھناہوگا۔
فروری 2018 ءمیں کنان پوش پورہ کے واقعے میں بچ جانے والے لوگوں کے انصاف کے لئے مددگارگروپ نے ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے ایک درخواست دائر کی جس میں زوردیاگیاکہ زیادتی کے تمام واقعات جوکہ سکیورٹی فورسز اور غیرریاستی لوگوں نے کئے کے بارے میں تحقیقات کی جائیں اور بچ جانے والوں کی بحالی کاکام کیاجائے۔
گروہ نے کمیشن کے سامنے زیادتی کے143 کیسوں کے ثبوت رکھے جوکہ 1989 ءاور 2017 ءکے درمیان کیے گئے۔ ایک قابل ذکرکیس جو کہ کشمیرمیں ریاست کی تحقیقات ، قانونی کاروائی میں ناکامی اورجنسی جرائم کی روک تھام میں ناکامی کوظاہرکرتاہے وہ کنان پورش پورہ کی اجتماعی زیادتی ہے جوکہ 27 سال پہلے ہوئی جہاں 23 فروری 1991 کی رات کو ہندوستانی فوج کے راجپوتانہ رائفلزکے فوجیوں کی طرف سے کیاگیا
جہنوں نے ضلع کپواڑہ میں 23 عورتوں سے اجتماعی زیادتی کی اور جن کےلئے انصاف کے حصول کی کوششوں کو ردکردیاگیااور مختلف موقعوں پر اہل اختیار کی طرف سے روک دیاگیا۔