نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ رواں سال کے اوائل میں بھارت کے شہر دلی میں ہونے والے فسادات کے دوران پولیس کی جانب سے ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آئیں۔‘
انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا، حراست میں لیے گئے افراد پر مظالم ڈھائے اور بعض اوقات مشتعل ہندو گروہوں کے ساتھ مل کر فسادات میں حصہ لیا۔
انڈیا میں فروری کے دوران یہ ہنگامے اس وقت پیش آئے جب شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ ہندو اور مسلمان گروہوں کے درمیان چھڑپوں میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اس سب میں انڈیا کے مسلمان بد ترین صورتحال سے دوچار رہے۔
ایمنسٹی کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر دلی کی پولیس نے تاحال جواب نہیں دیا ہے۔
دلی کے فسادات پر ایمنسٹی کی تحقیقات کے نتائج ہنگاموں کے دوران پولیس کے تشدد اور شمولیت پر بی بی سی کی رپورٹنگ سے ملتے جلتے ہیں۔ رواں سال دلی فسادات کئی دہائیوں میں انڈیا کے دارالحکومت میں بدترین ہنگامے قرار دیے گئے۔ تاہم پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوؤں کو بھی ان فسادات سے نقصان پہنچا لیکن اس کا بڑا ہدف مسلمان تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ فسادات اچانک پیش نہیں آئے۔ ان میں ہلاکتوں اور زخمیوں کے اعتبار سے ہندوؤں کے مقابلے مسلمانوں کی تین گنا زیادہ نقصان پہنچا۔ مسلمانوں کی جان، مال اور کاروبار زیادہ بُری طرح متاثر ہوئے۔‘
’(ہندؤں کے نقصان کا) تناسب کم ہوسکتا ہے لیکن ہندؤں کی رہائش گاہوں اور عمارتوں کو سرے سے چھوڑا نہیں گیا۔‘
شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کو اس کے ناقدین مسلمان مخالف کہتے ہیں۔ گذشتہ سال اس کی منظوری کے بعد انڈیا میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔
ایسا ہی ایک مظاہرہ دلی میں اس وقت پُرتشدد ہوگیا تھا جب اس قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
پُرتشدد واقعات میں مذہبی عنصر بھی شامل تھا اور دلی کے فسادات تین روز تک جاری رہے جن میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو مشتعل گروہوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں ہنگاموں کی ویڈیوز کا فارنزیک جائزہ لیا گیا جس سے اس نتیجے کو تقویت ملی کہ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی اور مشتعل گروہوں کو کچھ علاقوں میں بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت دی۔
رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ دائیں بازوں کے رہنماؤں نے ’نفرت انگیز تقاریر‘ کے ذریعے ہنگاموں کو بھڑکایا جبکہ پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔
دوسری طرف پولیس نے انسانی حقوق کے کارکنان کو گرفتار کیا جن میں اساتذہ اور طلبہ شامل تھے اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ایک بھی ایسے سیاسی رہنما کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی جس نے ہنگاموں سے قبل لوگوں کو مشتعل کیا اور نفرت انگیز تقاریر کیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان الزامات پر آزاد تحقیقات کی تجویز دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’دلی پولیس ہنگاموں کے ذمہ داران کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن فسادات کے دوران دلی پولیس کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کے خلاف اب تک کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔‘
کئی دوسری رپورٹس میں بھی فسادات کے دوران پولیس کے رویے پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
دلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ میں پولیس پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے مشتعل گروہوں کو یہ اجازت دی کہ وہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنائیں۔