اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سکیورٹی سٹاک ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کی مبینہ جبری گمشدگی سے متعلق درحواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والے تحقیقاتی ادارے اور ایجسنیاں اپنے کام پر توجہ دینے کی بجائے ریئل سٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہیں۔
اُنھوں نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر اعظم کو بتائیں کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے پراپرٹی کے کام میں مصروف ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیر کو ساجد گوندل کی مبینہ گمشدگی کے بارے میں درخواست کی سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ کو محاطب کرتے ہویے کہا کہ لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ساجد گوندل کی بازیابی کے لیے اجلاس ہوئے ہیں تاہم ان کی بازیابی کے بارے میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ ایک ڈی ایس پی رینک کا افسر مغوی کے گھر گیا جہاں پر ان کے اہلخانہ کا بیان قملبند کیا جس پر بینچ کے سربراہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی وزیر کا بیٹا اغوا ہوا ہوتا تو تب بھی پولیس سمیت ذمہ داران کا رویہ یہی ہوتا جس طرح ساجد گوندل کے اغوا کے بارے میں اپنایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو محاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت عدالت کے سامنے ریاست کی حیثیت سے کھڑے ہیں اور ریاست اس بات کو تسلیم کرے کہ وہ ساجد گوندل کو بازیاب کروانے میں ناکام ہوئی ہے۔
اُنھوں نے سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ وہ وزیر اعظم کو بتائیں کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے اپنے کام پر توجہ دینے کی بجائے پراپرٹی کے کام میں مصروف ہیں۔
سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ خفیہ اور تحقیقاتی ادارے ریئل سٹیٹ کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
اس موقع پر اسلام آباد کے ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کے ذمہ داران پراپرٹی کے کاروبار میں شامل نہیں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس طرح تو سپریم کورٹ کے ملازمین کی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تو بدعنوانی ہوتی رہے گی۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی ایک ایسی مثال بتائیں جس میں اُنھوں نے کسی عدالتی حکم کے بغیر کسی لاپتہ شخص کو بازیاب کروایا ہو۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسی خبریں بھی آئی ہیں جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ساجد گوندل کے اغوا کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کیا کسی اہلکار نے اس کمیشن کے سربراہ سے رابطہ کر کے پوچھنے کی کوشش کی کہ ان کے پاس ایسی کونسی معلومات ہیں جن کے تحت انھوں نے اس واقعہ کو جبری گمشدگی قرار دیا ہے۔
سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت اس معاملے کو جبری گمشدگی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کی آزادی کی تحریک میں وزیر اعظم عمران خان کا بھی ایک کردار رہا ہے اور وہ اُنھیں بتائیں کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو تو اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
سماعت کے دوران مغوی ساجد گوندل کے اہلخانہ اور ان کی والدہ بھی موجود تھیں۔ ساجد گوندل کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست ان کی والدہ نے دائر کی ہے۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی وزارت کے زیر انتظام چلنے والے اداروں نے اپنا کام احسن طریقے سے ادا کیا ہوتا تو آج کسی مغوی کے بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے عدالتوں میں نہ آتے۔ سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون نے متعدد بار بولنے کی کوشش کی لیکن اُنھیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
عدالت نے حکام کو اگلے دس روز میں ساجد گوندل کو بازیاب کروانے کا حکم دیا ہے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس نے گزشتہ سماعت پر اسلام آباد پولیس کے حکام کو دو روز میں مغوی کو بازیاب کروانے کا حکم دیا تھا۔