اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ چند دنوں میں نہ صرف ملک کے مختلف شہروں میں شیعہ مخالف مظاہروں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ اس کے علاوہ شیعہ علما پر اہم مذہبی ہستیوں کی مبینہ توہین کے الزامات عائد کیے گئے اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل بھی ہوا۔
مگر یہ حالات کیسے شروع ہوئے اور ان کے عوامل کیا تھے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کالعدم تنظیموں پر تحقیق کرنے والے سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے کہا کہ بہت سارے فرقہ وارانہ گروپ ایک موقع کی تلاش میں تھے کہ انھیں جگہ ملے اور وہ اپنے نیٹ ورک کو فعال بنا سکیں۔
‘ایک چھوٹے سے واقعے نے ماحول پیدا کیا اور وہ کالعدم تنظیمیں اور دوسری ایسی جماعتیں جن پر انتہا پسندی کا لیبل لگا ہوا ہے انھیں اسی طرح کے واقعے کی تلاش تھی اور انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد فرقہ ورانہ تنظیموں میں تبدلیاں آئی ہیں اور رویے بدلے ہیں، ان واقعات سے لگتا ہے کہ کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔’
وہ واقعہ بظاہر اس برس عاشورہ کے موقع پر پیش آیا جب کچھ ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئیں جس میں مبینہ طور پر اہم مذہبی ہستیوں کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض الفاظ’ کہے گئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے بعد قریباً پچاس کے قریب شیعہ علما پر اہم مذہبی ہستیوں کی مبینہ توہین کا الزام عائد کیا گیا اور دفعہ 295 اور 298 کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ تقریباً روزانہ سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر شیعہ برادری کی مخالفت پر مبنی مواد ٹرینڈ ہوتا دکھائی دیا ہے۔
اسی تناظر میں اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جمعے کو منعقد کیے گئے سیمینار سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے زور دیا کہ سنی اور شیعہ مسالک کے اختلافات صدیوں پرانے ہیں اور وہ فوری طور پر حل نہیں ہو سکتے۔
انھوں نے حکومت پر زور دیا کہ انھیں ایسی راہ نکالنی ہو گی کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے مل جل کے بیٹھیں اور جو گروہ کشیدہ صورتحال پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں انھیں یہ بات باور کرائی جائے کہ پاکستان ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کا سیاست میں استعمال نہ کیا جائے۔‘
اسی ویبینار میں شریک طارق پرویز، جو کہ ماضی میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں، نے پاکستان میں فرقہ واریت کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بر صغیر میں فرقہ واریت برسوں سے چل رہی ہے اور دونوں مسالک میں اختلافات پہلے سے ہیں لیکن ماضی میں یہ اختلافات پر امن طریقے سے حل ہو جاتے تھے اور بڑے پیمانے پر کبھی نہیں پھیلتے تھے۔
‘لیکن جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں، بنیادی سوال یہ ہے کہ اب اس میں تشدد کا عنصر کیوں آ گیا ہے۔ کیوں کہ جب ایک دفعہ شدت کا عنصر آیا اس کے بعد پھر کبھی ختم نہیں ہوا۔’
حارث خلیق کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے طارق پرویز کا کہنا تھا کہ ریاست نے جب اپنی پالیسیوں میں مذہبی عنصر شامل کیا تو اس سے شدت پسندی کو پروان ملا۔
سنہ 1979 کو اہم ترین سال گردانتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سال ہونے والے ملکی اور غیر ملکی واقعات نے ریاستی پالیسی کو تبدیل کیا اور جس کا نتیجہ آج دیکھا جا سکتا ہے۔
‘ان پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے دیکھا کہ ملک میں دیو بندی جماعتوں کو سرکاری سرپرستی ملی اور پھر ان جماعتوں کے اراکین افغان جہاد کے لیے گئے تو وہ دیو بندی جہاد میں تبدیل ہو گیا۔ اور اس مسلک سے تعلق رکھنے والے ان افراد میں شیعہ مخالف خیالات تھے۔’
طارق پرویز نے کہا کہ ریاست کا خیال تھا کہ جہاد میں جانے والے یہ افراد پاکستان واپس نہیں آئیں گے مگر جب 1989 کے بعد ان کی واپسی ہوئی تو اس کے بعد ملک میں پرتشدد فرقہ واریت میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور 90 کی دہائی اس لحاظ سے سب سے بری تھی۔
‘اس دہائی میں حالات یہ تھے کہ صبح اگر سنی قتل، تو شام میں ایک شعیہ قتل ہوتا تھا۔ 97′ میں ان واقعات میں عروج دیکھنے میں آیا اور پانچ سال تک جاری رہا جس کے بعد وقتاً فوقتاً اونچ نیچ آتی رہی لیکن کبھی مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔ اور جس قسم کا بیانیہ ہم آج دیکھ رہے، یہ ہمارے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر اسے فوری قابو نہیں کیا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔’
اس سوال پر کہ ماضی میں ایسے مظاہرے صرف دیوبندی تنظیموں کی جانب سے ہوتے تھے لیکن اب ان میں بریلوی تنظیمیں کیوں شامل ہو گئیں، ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے عامر رانا کا کہنا تھا کہ کراچی اور اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں میں شامل تمام علما وہ تھے جنھوں نے ‘پیغام پاکستان’ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
یاد رہے کہ 2018 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 1800 علما کی مشاورت کے بعد ایک فتویٰ تیار کرایا تھا جس کے تحت مذہبی اتفاق رائے پر آمادگی اور شدت پسندی کے خاتمے پر اتفاق رائے حاصل کیے گئے تھا۔
‘بریلوی ہوں یا دیو بندی، دونوں مسالک کے اپنے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں ۔ جب وہ حکومت سے بات کرتے ہیں تو وہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن منبر پر جا کر ان کا بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اس رویہ کی وجہ ہے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا۔ اب یہ ایک دوسرے سے طاقت چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو اوپر آئے گا تو اس کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا، چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی۔’
اس سوال پر کہ حالات کس نہج پر جا رہے ہیں اور مستقبل میں کہیں کشیدگی بڑھ نہ جائے، طارق پرویز کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو شاید ابھی تک احساس نہیں ہو رہا ہے کہ معاملات کتنے سنگین ہیں اور وہ سمجھ رہے کہ یہ صرف وقتی ہے اور ختم ہو جائے گا، لیکن ایسا ہے نہیں۔ ‘
‘ہم لوگ صرف وقتی طور پر اس معاملے کو دیکھتے ہیں اور پھر بھلا دیتے ہیں۔ اس کو مسلسل توجہ دینا ہو گی۔’
طارق پرویز نے سوشل میڈیا پر جاری گفتگو پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہاں سے ایک بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
‘یہ ایک حساس معاملہ ہے اور بہت دھیان سے اس پر کام کرنا ہوگا لیکن سوشل میڈیا بہت طاقتور پلیٹ فارم ہے اور اگر وہاں پر ہونے والی فرقہ واریت پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ بہت سنگین بحران میں بدل سکتا ہے۔’
عامر رانا نے بھی ایسی ہی منظر کشی کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس فرقہ واریت کو جڑ سے ختم نہیں کیا تو ملک کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
‘حالات اسی طرف جا رہے ہیں جو نوے کی دہائی میں تھے۔ شیعہ تنظیمیں بھی دوبارہ سے اپنی طاقت میں اضافہ کر رہی ہیں اور اس سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اپنی آنکھیں کھولے۔’
عامر رانا کا کہنا تھا کہ حکومت نے ‘خوش آمدانہ پالیسی’ کا طریقہ اپنا لیا ہے کہ ان جلسے جلوسوں کو آزادی سے کرنے دیا جائے اور میڈیا پر بلیک آْؤٹ رہنے دہیں لیکن یہ غلط طریقہ ہے اور یہ مستقبل میں بڑے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
‘سیاسی جماعتیں ملک میں موجودہ حالت کے باعث کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور مستقبل کے انتخابات میں اگر مذہبی تنظیمیں ان جماعتوں کے نعم البدل کے طور پر ابھرتی ہیں تو اس سے ملک میں بڑی خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔’