لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف کی منی لانڈرنگ ریفرنس میں گرفتاری کے بعد لاہور کی ایک احتساب عدالت نے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دے دی ہے۔
منگل کو احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے انھیں دوبارہ 13 اکتوبر کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
انھیں سکیورٹی کے سخت انتظامات میں نیب عدالت پیش کیا گیا تھا اور اس موقع پر ان کے اہلخانہ، پارٹی رہنما اور کارکنان بھی موجود تھے جنھوں پر اس اقدام کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔
نیم فوجی دستے رینجرز نے عدالت کے احاطے میں سیکورٹی امور سرانجام دیے اور یہاں لیگی رہنما خواجہ آصف ،رانا ثنااللہ خان، عطااللہ تارڑ، ریم اورنگزیب ،عظمی بخاری اور شیزہ فاطمہ کے علاوہ سینکڑوں کارکنان کی بھی بڑی تعداد یہاں موجود ہے۔
پیر کے روز شہباز شریف کے وکلا کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد نیب اہلکاروں نے قائد حزبِ اختلاف کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا تھا۔
صحافی عباد الحق کے مطابق شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کے الزام میں اس سال جون میں ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور اس پر لگ بھگ چار ماہ تک سماعت ہوتی رہی اور اس دوران مختلف دو رکنی بنچز نے سماعت کی۔
پیر کی سماعت کے دوران شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور کہا کہ وہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور گلگت بلتستان میں انتخابات ہونے والے ہیں اور حکومت اُن کی زبان بندی چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اپنے دورِ حکومت میں انھوں نے قومی خزانے کا ایک ارب بچایا اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کیے اور اُن کے فیصلوں سے ان کے خاندان کو کاروباری نقصان ہوا۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ ریفرنس عدالت دائر ہو گیا اور عدالتی حکم پر شہباز شریف عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے نشاندہی کی کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے اس مرحلے پر گرفتاری کا کیا جواز ہے۔
وکیل کے مطابق اگر شہباز شریف ہوتے ہیں اور چھ ماہ جیل میں رکھیں تو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ وکیل نے دلیل دی کہ جس نے ایک ہزار ارب روپے بچائے ہوں وہ چند ارب کا خطرہ کیوں مول لے گا۔
ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے دعویٰ کیا کہ حکومت بلدیاتی انتخابات سے پہلے شہباز شریف کو جیل میں ڈالنا چاہتی ہے اور شعرہ پڑھا کہ ‘سنجیاں ہو جان گلیاں، وچ مرزا یار پھرے۔’
ادھر نیب کے وکیل فیصل بخاری نے استدعا کی کہ شہباز شریف سے ابھی تک تفتیش نہیں کی گئی اس لیے اس کی گرفتاری کی ضرورت ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نیب کسی بھی کرپشن کی تحقیقات شروع کر سکتا ہے اور نیب کا قانون 18 از خود کارروائی کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال جون میں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔
’انصاف ہے تو گرفتار شہباز شریف کو نہیں عاصم باجوہ کو ہونا چاہیے’
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر اس ملک میں ذرا سا بھی قانون اور انصاف ہے تو گرفتاری شہباز شریف کی نہیں، عاصم سلیم باجوہ کی ہونی چاہیے تھی۔
وہ پیر کو لاہور میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پریس کانفرنس کر رہی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’99 کمپنیاں شہباز شریف کی نہیں نکلیں، یہ سینکڑوں فرینچائز ان کی نہیں ہیں، بلکہ عاصم سلیم باجوہ کی نکلی ہیں نیب اس معاملے میں کیوں خاموش ہے؟’
یاد رہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی نے حال ہی میں اپنی ایک خبر میں باجوہ خاندان کے مالی مفادات کے بارے میں الزامات عائد کیے تھے۔ لیفٹیننٹ جرنل ریٹائرڈ عاصم باجوہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ہونے کے ساتھ ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری کے سربراہ بھی ہیں اور انھوں نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی تھی اور تفصیلی پریس ریلیز میں خود پر لگائے گئے الزامات کا تفصیلی جواب دیا تھا۔
مریم نواز نے نیب کے کردار کو ‘جانبدار’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘نیب پشاور بی آر ٹی، نہ ان بسوں میں لگنے والی آگ نظر آتی ہے نہ بلین ٹری سونامی نظر آتا اور نہ ان کو بڑے بڑے وزرا کی کرپشن نظر آتی ہے؟’
انھوں نے کہا کہ ‘کبھی مولانا فضل الرحمان کو نوٹس بھیجا جاتا ہے تو کبھی شہباز شریف کو گرفتار کیا جاتا ہے، ہے کسی میں اتنی ہمت کے عاصم سلیم باجوہ کو نوٹس بھیجے۔’