پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پشاور پولیس کے مطابق پیر کو دن کے وقت کوہاٹ روڈ پر فائرنگ کے ایک واقعے میں پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کو قتل کر دیا گیا ہے۔
اس واقعے سے متعلق ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کے بھائی ضیا الدین خٹک نے مقدمہ درج کرایا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کے قتل کے واقعے میں ایگریکلچر یونیورسٹی کے دو پروفیسر ملوث ہیں۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ دونوں کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کی ’مذہبی مخالفت پر تلخ کلامی ہوئی تھی‘۔
مدعی مقدمہ ضیا الدین خٹک نے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے عینی شاہد بھی ہیں۔
ان کے مطابق اس واقعے کے دن وہ بھائی سے ملنے کالج گئے تھے۔ ’جس کے بعد ہم دونوں کالج سے باہر نکلے اور وہ اپنی گاڑی میں جبکہ میں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ان کے پیچھے پیچھے جارہا تھا کہ جائے وقوعہ پر دیکھا کہ موٹر سائیکل پر سوار ملزمان پستول نکال کر بھائی پر فائرنگ کر رہے ہیں‘۔
پشاور پولیس کے سربراہ محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مقدمے میں نامزد افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ قتل کی وجہ تفتیش کے نتیجے ہی میں معلوم ہوسکتی ہے۔ ابھی اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے‘۔
جماعت احمدیہ نے کہا ہے کہ پشاور میں ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ جماعت احمدیہ کے مطابق کالج سے گھر جاتے ہوئے راستے میں کوہاٹ روڈ پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کی تھی۔
جماعت احمدیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر خاص طور پر پشاور میں کچھ عرصے سے احمدیوں کے خلاف ’ایک نئی نفرت انگیز مہم کا آغاز ہوا ہے جس کے نتیجے میں اشتعال انگیزی بڑھتی جارہی ہے‘۔
جماعت احمدیہ کا کہنا تھا کہ ’ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت اور ریاست اپنے شہریوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ ان واقعات کے ملزماں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات ہوں گے‘۔
واضح رہے کہ اگست میں ایک احمدی شخص کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کا مقدمہ نامعلوم ملزماں کے خلاف درج ہوا تھا۔
ڈاکٹر پروفیسر نعیم الدین خٹک کون تھے؟
مقتول ڈاکٹر نعیم الدین خٹک کے بھائی شہباب الدین خٹک ایڈووکیٹ نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر پروفسیر نعیم الدین خٹک نے سوگواروں میں بیوہ اور پانچ بچے چھوڑے ہیں۔ ان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔
وہ زولوجی (علم حیوانیات) کے شعبے میں پی ایچ ڈی تھے۔ طویل عرصہ سے سپیریئر سائنس کالج پشاور میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پشاور دہشت گردوں کا مرکز ہے۔ یہاں پر دہشت گرد کھلے عام گھوم پھر رہے ہیں۔ ان دہشت گردوں سے پشاور میں موجود انسانی حقوق کے کارکناں، ترقی پسندوں کو خطرات لاحق ہیں۔ ہمارے بھائی کو اس سے قبل بھی دھمکیاں ملی تھیں‘۔