لاہور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستانی صوبہ پنجاب کی اعلیٰ ترین عدالت نے توہین مذہب کے ایک مقدمے میں ملزم کو سنائی گئی موت کی سزا ختم کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا۔ مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ملزم کو سزائے موت ایک ماتحت عدالت نے سنائی تھی۔
صوبہ پنجاب کی اعلیٰ عدالت لاہور ہائی کورٹ نے ساون مسیح نامی ملزم کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں سنائی گئی موت کی سزا ختم کر دی۔ ملزم چھ برس سے بھی زائد عرصے سے جیل میں اپنی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیل پر فیصلے کا منتظر تھا۔ اسے یہ سزا ایک ماتحت عدالت نے سنائی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی تصدیق عدالت کے ترجمان سید مدثر حسین نے بھی کر دی۔ اس فیصلے کے حوالے سے مسیحی برادری کی ایک غیر حکومتی تنظیم کے سربراہ جوزف فرانسس نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ یہ ہائی کورٹ کا ایک بہادرانہ فیصلہ ہے۔ جوزف فرانسس کی تنظیم توہین مذہب کے مقدمات میں ملزم نامزد کیے جانے والے مسیحی باشندوں کو قانونی معاونت کے ساتھ ساتھ وکیل بھی مہیا کرتی ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں سزا پانے والے ساون مسیح کی رہائی ایک بہادرانہ فیصلہ اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ اس نوعیت کا دوسرا مقدمہ ہے، جس میں مبینہ ملزم کے لیے سزائے موت منسوخ کرتے ہوئے عدالت نے اس کی رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ ساون مسیح کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں کب رہا کیا جائے گا۔ تاہم جوزف فرانسس نے بتایا کہ رہائی جلد ممکن ہے۔ ان کے مطابق ساون کے خاندان کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اس باعث وہ رہائی کے بعد چھپ کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گا۔
ساون مسیح کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ سن 2013 میں دائر کیا گیا تھا۔ ساون مسیح پر عوامی سطح پر الزام لگائے جانے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں ایک مشتعل ہجوم نے مسیحی برادری کی بستی جوزف کالونی میں ایک سو سے زائد مکانات جلا دیے تھے۔
پاکستان میں اس وقت تقریباﹰ ایک درجن مسیحی شہری توہین مذہب کے الزامات میں ماتحت عدالتوں سے سزائے موت کے حکم سن چکے ہیں۔ یہ سب ابھی تک جیلوں میں ہیں اور ان سزاؤں کے خلاف دائر کردہ اپنی اپیلوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔
قبل ازیں پاکستانی سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بھی اسی طرح کے ایک مقدمے میں رہا کر دیا تھا۔ وہ رہائی کے بعد اب اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک آباد ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ مختلف واقعات میں بے بنیاد الزامات کے تحت سخت گیر عقیدے کے حامل مشتعل گروہ کئی افراد کو ہلاک بھی کر چکے ہیں۔
پنجاب کے صوبائی گورنر سلمان تاثیر کو بھی ان کے ایک محافظ پولیس اہلکار ممتاز قادری نے اس لیے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو سنائی گئی سزا کے مخالف تھے۔