پشاور (ڈیلی اردو/ بی بی سی) پشاور ہائی کورٹ نے افغانستان سے لائے گئے دس بچوں کو افغان قونصل خانے کے توسط سے انھیں ان کے والدین کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے اور درخواست گزار سمیت مدارس کے نمائندوں کو گرفتار کر کے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی عدالت میں آج اُن دس افغان بچوں کو بھی لایا گیا جو کہ خیبر پختونخوا کے شہر اکوڑہ خٹک کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔
جمعہ کے دن سماعت کے دوران افغان قونصل خانے کے عہدیدار بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ دری اور فارسی زبان کے ایک پروفیسر کو مترجم کے طور پر بھی طلب کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ اکوڑہ خٹک کے قریب افغان کیمپ میں اس وقت تنازع پیدا ہو گیا جب ایک مسلک کے مدرسے میں زیر تعلیم دس بچوں کو دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے مدرسے کے عہدیدار لینے آ گئے تھے۔ جب تنازع شدت اختیار کر گیا تو پولیس کو بلایا گیا، جس کے بعد معاملہ پشاور ہائی کورٹ پہنچ گیا۔
عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ بچوں کی تصاویر لے کر ان کے ناموں کے ساتھ ریکارڈ مرتب کر کے انھیں افغان قونصل خانے کے حکام کے حوالے کر دیا جائے تاکہ ان بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کیا جا سکے۔
ان بچوں کی عمریں سات سے دس سال کے درمیان بتائی گئی ہیں اور انھیں پاکستان آئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ ’یہ ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ اس طرح کے بچے یہاں لائے جاتے ہیں اور انھیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ یہ کیسے یہاں پہنچ گئے ہیں‘
عدالت نے افغان قونصل خانے کے حکام سے بھی کہا ہے کہ وہ ان بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کرنے کے بعد دستاویزات اور شواہد سمیت مکمل رپورٹ 15 دن میں عدالت میں پیش کریں گے۔
افغان قونصل خانے کے حکام نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ ان بچوں کو ان کے والدین تک پہنچا دیں گے اور مقررہ وقت کے اندر اندر عدالت کو افغان حکومت کی جانب سے دستاویزات بھی پیش کر دیے جائیں گے۔
عدالت نے پولیس کو مدارس کے نمائندوں کو گرفتار کر کے ان سے تحقیق کرنے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ معلوم کیا جائے کہ ان بچوں کو کیوں اور کیسے پاکستان لایا گیا، کُل کتنے افغان بچے ان مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور آیا ان کے پاس یہاں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضروری دستاویزات موجود ہیں۔
عدالت میں کیا ہوا؟
جمعے کی صبح جب بچوں کو عدالت میں لایا گیا تو چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قیصر علی شاہ اور مترجم پروفیسر یوسف حسین کو ان بچوں سے سوال جواب کرنے کا کہا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ تمام بچوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے۔ ان میں سے چار بچے آپس میں رشتہ دار ہیں جبکہ باقی سب مختلف گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مترجم نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان بچوں نے ہر سوال پر یک زبان ہو کر ایک ہی جواب دیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھیں بچوں کو باقاعدہ سمجھایا گیا ہو کہ انھوں نے کیا بولنا ہے۔
پروفیسر یوسف حسین نے بتایا کہ ان بچوں سے جب پوچھا کہ کیا وہ اپنے والدین کے پاس جانا چاہتے ہیں تو سب نے جواب نفی میں دیا۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اس موقع پر استفسار کیا کہ ایسا لگتا ہے جیسے ان بچوں کی ذہن سازی کی گئی ہے اور ان کو پھر یہاں کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے ہی بچے ہوتے ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ اس طرح کے بچے یہاں لائے جاتے ہیں اور انھیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ یہ کیسے یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘
عدالت کو بتایا گیا کہ ان بچوں کو غیر قانونی طور پر افغانستان سے کوئٹہ کے راستے پشاور اور پھر اکوڑہ خٹک پہنچایا گیا تھا۔
افغان بچے
جب درخواست گزار عزت اللہ کو طلب کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک بچہ ان کا بھتیجا اور ایک بھانجا ہے، لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے عزت اللہ سے پوچھا کہ وہ ان بچوں کو کیسے پاکستان لائے، کیا ان کے پاس اجازت تھی اور کیا ان بچوں کے بارے میں افغان قونصل خانے کو یا حکومت کو اطلاع دی گئی تھی؟ اس پر عزت اللہ نے بتایا کہ وہ ان بچوں کو دینی تعلیم کے لیے پاکستان لائے تھے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا انھیں یہاں ان کے والدین کی رضامندی کے ساتھ لایا گیا یا نہیں۔
بچوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان لایا گیا
پشاور میں افغان قونصل خانے کے ڈائریکٹر عبدالحمید جلیلی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان بچوں کو افغانستان سے کوئٹہ کے راستے غیر قانونی طور پر لایا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ افغانستان کے صوبہ بدخشان میں اسلامی امارت اور سلفی مسلک کے لوگوں کے درمیان کشیدگی جاری ہے اور ان بچوں کو طالبان نے اپنی تحویل میں لے کر پاکستان میں اکوڑہ خٹک کے مدرسے میں تعلیم کے لیے بھجوا دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں غیر قانونی طور پر افغانستان سے یہاں لایا گیا اور اس میں افغان حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔
عبدالحمید جلیلی نے بتایا کہ وہ ان بچوں کے والدین کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ان کے حوالے کر دیے جائیں۔
ان کے مطابق افغان قونصل خانے کا مطالبہ یہی تھا کہ یہ بچے ان کے حوالے کر دیے جائیں تاکہ انھیں واپس افغانستان میں ان کے والدین کے پاس بھیجا جا سکے۔