پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) توہینِ مذہب کے ملزم طاہر نسیم کو جولائی 2020 میں پشاور کی ایک عدالت میں قتل کر دیا گیا تھا۔
پشاور کی ایک عدالت میں جج کے سامنے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار شخص کو ہلاک کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کیسے اور کہاں کی گئی اور کیسے ایک کوشش ناکام ہونے کے بعد دوسری مرتبہ کوشش کی گئی، یہ سب اس مقدمے میں گرفتار ایک شخص نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں بتایا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج پشاور کی عدالت میں 29 جولائی کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ملزم طاہر نسیم کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حملہ آور فیصل خالد کو احاطہ عدالت میں پولیس نے آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔
اس مقدمے میں اب تین افراد گرفتار ہیں جن میں ایک ملزم فیصل خالد ہیں جنھیں پشاور ہائی کورٹ نے کم عمر قرار دیا ہے اور اب ان کا مقدمہ جووینائل قانون کے تحت ہوگا۔
اس کے علاوہ ایک ملزم طفیل ضیا ہیں جنھوں نے وکلا کے مطابق قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انھیں اب تک وکالت کا لائسنس نہیں ملا تاہم وہ عدالت آ رہے تھے۔
ملزمان کے وکیل شبیر گگیانی نے بتایا کہ پولیس تفتیش کے مطابق طفیل ضیا سے پوچھ گچھ کے دوران معلوم ہوا تھا کہ ایک وسیع اللہ نامی شخص بھی اس میں ملوث ہیں جنھیں پولیس نے گرفتار کیا ہے۔
شبیر گگیانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم وسیع اللہ نے علاقہ مجسٹریٹ اور پولیس کے سامنے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا ہے لیکن اس کے بعد وسیع اللہ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس سے انکار کر دیا ہے۔
ملزم نے اعترافی بیان میں کیا کہا؟
یہ اعترافی بیان جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دیا گیا ہے اور اس کے لیے تمام تقاضے پورے کیے گئے تھے جس کے تحت ملزم وسیع اللہ کی ہتھکڑیاں کھول دی گئی تھیں، پولیس اہلکار کمرے سے باہر چلے گئے تھے اور ملزم کو سوچنے کا مکمل وقت دیا گیا تھا۔
اس بیان میں وسیع اللہ نے بتایا کہ توہین مذہب کے ملزم طاہر نسیم کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی طفیل ضیا کے دفتر میں کی گئی تھی اور اس منصوبے میں وہ خود، طفیل ضیا اور فیصل خالد شامل تھے۔
اس اعترافی بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے لیے نائن ایم ایم کی پستول ایک کاریگر سے 17 ہزار روپے میں بنوائی گئی تھی جسے عدالت میں پہنچانے کی ذمہ داری طفیل ضیا کو دی گئی تھی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پستول 15 جولائی کو طفیل ضیا کو دی گئی جنھوں نے 16 جولائی کو پستول فیصل خالد کے حوالے کرنی تھی، لیکن سخت سکیورٹی کی وجہ سے فیصل عدالت میں پہنچ نہیں پایا تھا۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم طاہر نسیم کے مقدمے کی آئندہ سماعت کے لیے 29 جولائی کی تاریخ مقرر ہوئی تھی اور اس کے لیے پستول 28 جولائی کو دوبارہ ملزم طفیل ضیا کے حوالے کی گئی تھی جنھوں نے واقعے کے روز جوڈیشل کمپلیکس کی پہلی منزل میں واش روم میں پستول فیصل خالد کے حوالے کی۔
وسیع اللہ نے بیان میں کہا ہے کہ فیصل خالد نے عدالت کے کمرے میں جا کر ملزم طاہر نسیم پر فائرنگ کی تھی۔
شبیر گگیانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ملزم وسیع اللہ اب اپنے اس بیان سے مکر گئے ہیں اور اب عدالت میں اس بارے میں گواہ لائے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ اس بیان کو کیسے دیکھتی ہے اور کیا شہادتیں لائی جاتی ہیں۔
اس مقدمے کی سماعت اب 14 اکتوبر کو جیل کے اندر ہوگی۔ اس مقدمے میں پشاور ہائی کورٹ نے ملزم فیصل خالد کو کم عمر قرار دیا ہے جس کے باعث ان کے مقدمے کی سماعت جووینائل قانون کے تحت ہوگی جبکہ باقی دو کے مقدمے کی سماعت معمول کے قوانین کے تحت ہو گی۔
سفید شلوار قمیض میں ملبوس فیصل خالد پر طاہر نسیم کے قتل کا الزام ہے تاہم انھیں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے کم عمر قرار دیا گیا ہے
طاہر نسیم کون تھے؟
پولیس کے مطابق طاہر احمد نسیم کے خلاف 25 اپریل 2018 میں تھانہ سربند میں توہین رسالت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس ایف آئی آر میں دفعات 295 اے، بی اور سی سمیت دفعہ 298 اور 153 اے بھی شامل کی گئی تھیں۔
ایف آئی آر کے مطابق تھانہ سربند کو اسلام آباد کے ایک مدرسے کے طالبعلم کی جانب سے درخواست ملی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ طاہر احمد نسیم توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس بارے میں یو ایس بی میں تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
پولیس کو دی گئی تحریری درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان کا طاہر احمد کے ساتھ تعلق فیس بک پر ہوا اور پھر ان کی ملاقات پشاور میں ہوئی جہاں طاہر احمد نے ایسی باتیں کی جو توہین رسالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ طاہر نسیم کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ امریکی شہریت رکھتے ہیں اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد امریکہ میں ہی مقیم ہیں۔
پولیس کے مطابق توہین مذہب کے ملزم طاہر احمد نسیم 2018 سے جیل میں تھے۔ 29 جولائی 2020 کو ان کے خلاف مقدمے کی سماعت تھی جس کے لیے انھیں پشاور میں سیشن کی عدالت میں لایا گیا تھا۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا تھا کہ طاہر احمد نسیم کو عدالت کے احاطے میں فیصل خالد نامی نوجوان نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔ قتل کا یہ مقدمہ اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
فیصل خالد کی جانب سے وکلا نے پہلے ضمانت کی درخواست دی تھی جسے واپس لے لیا گیا تھا۔