اسلام آباد (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائیکورٹ نے لال مسجد کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ جیسے پہلے امن قائم ہوا اب پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لال مسجد کی بندش کیخلاف شہداء فاؤنڈیشن کی درخواست پر سماعت کی۔
ہائیکورٹ نے معاملہ حل کرنے کے لیے وقت دینے کی ڈی سی اسلام آباد کی استدعا منظور کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو دسمبر تک معاملہ قانون کے مطابق حل کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا لال مسجد بند ہے؟۔ ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے بتایا کہ لال مسجد میں 30 سے 40 طالبات موجود ہیں، انہوں نے غیر قانونی طور پر مسجد میں کمرے بنا کر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ سرکاری مسجد ہے، جہاں جانے والا صرف ایک راستہ بند ہے، مسئلہ حل کررہے ہیں وقت دیا جائے۔
شہداء فاؤنڈیشن کے صدر طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں خواتین کو بٹائیں تاکہ مسجد کھل جائے۔ عدالت نے کہا کہ وہ آپ کے لوگ ہیں آپ بچیوں کو وہاں سے کہیں اور بھیج دیں۔
طارق اسد ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ لال مسجد شہداء فاؤنڈیشن کی ملکیت نہیں، شہداء فاؤنڈیشن شہداء کے ورثا کی تنظیم ہے، راستہ بند ہونے سے نمازیوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے، انتظامیہ نے پہلے بھی امن قائم کیا تھا اب بھی کرسکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ انتظامیہ کو اس مسئلے کو دیکھنا ہے کہ کیسے حل کیا جاسکتا ہے، جس طرح پہلے امن قائم ہوا اب پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے قانون کے مطابق معاملہ حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ شہداء فاؤنڈیشن نے مسجد کی بندش کیخلاف عدالت سے رجوع کر رکھا ہے۔